بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اجتماعی قربانی کے منتظمیں کا بقایا رقم کو مسجد کے مصارف میں خرچ کرنے کا حکم


سوال

ہمارے یہاں اجتماعی قربانی کی ترتیب یہ ہوتی ہے ،کہ اجتماعی قربانی کے لیے فی حصہ رقم لی جاتی ہے، قربانی کے بعد منتظمین گائے کی قیمت و دیگر اخراجات کا ٹوٹل کرکے ادا شدہ رقم سے منہا کرتے ہیں اور باقی رقم حصہ لینے والے کو واپس کی جاتی ہے، اس سلسلے میں منتظمین تاریخ دیتے ہیں اور تحریری طور پر بتاتے ہیں آخری تاریخ کے بعد بقایا رقم مسجد کے مصارف پر خرچ کر دی جائے گی ۔

1)پوچھنا یہ ہے کہ کیا قربانی کی باقی رقم مسجد کے مصارف پر خرچ کرنا جائز ہے خلاف شریعت تو نہیں ؟

2)ساتھ ہی اگر یہ وضاحت بھی کر دیں کہ مسجد کے لیے کس کس مد سے امداد دی جا سکتی ہے،مثلا کھال دینا،صدقہ، زکوات ، فطرہ وغیرہ ۔

جواب

1)اگر  اجتماعی قربانی میں شریک حصہ داروں  نے منتظمین سے ابتداء میں یہ معاہدہ کیا ہو ،کہ بقایا رقم مقررہ تاریخ  تک اگر ہم نے وصول نہ کی تو ہماری طرف سے بالکل مسجد کے مصارف میں لگانے کی اجازت ہوگی،تب تومالکان کی طرف سے بقایا رقم،مقررہ تاریخ تک وصول نہ کرنے کی وجہ سے   انتظامیہ کو مسجد کے مصارف میں مذکورہ رقم لگانے کی اجازت حاصل ہوگی،اوراگر ابتداء میں اس قسم کا معاہدہ انتظامیہ اور حصہ داروں میں نہیں ہوا تھا،تب انتظامیہ کا مالکان کی اجازت کے بغیر مسجد کے مصارف میں لگانا جائز نہیں ہوگا۔

مشكاة المصابيح  میں ہے:

"و عن عمرو بن عوف المزني عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «الصلح جائز بين المسلمين إلا صلحًا حرّم حلالًا أو أحلّ حرامًا و المسلمون على شروطهم إلا شرطًا حرم حلالًا أو أحلّ حرامًا». رواه الترمذي و ابن ماجه و أبو داود و انتهت روايته عند قوله: «شروطهم»."

(كتاب البيوع، باب الإفلاس و الإنظار، الفصل الثاني، ج:2، ص:882، رقم:2923، ط: المكتب الإسلامي - بيروت)

وأيضاً:

"وعن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ألا تظلموا ألا لا يحل مال امرئ ‌إلا ‌بطيب ‌نفس ‌منه» . رواه البيهقي في شعب الإيمان والدارقطني في المجتبى".

(كتاب البيوع ،باب الغصب والعارية، الفصل الثاني، 889/2، رقم: 2446، ط: المكتب الإسلامي - بيروت)

  2) مسجد کے انتظامی امور کے اخراجات ہدایا ،عطایا،اور نفلی صدقات سے پورے کرنا جائز ہے،زکات اور صدقاتِ واجبہ (مثلاً: نذر، کفارہ، فدیہ اور صدقہ فطر) مسجد میں نہیں لگاسکتے ہیں،  بقایا رقم  چوں کہ عطیہ کے قبیل سے ہے،اس لیے مذکورہ رقم مسجد کے مصارف میں لگانا جائز ہے۔

"الفتاوى الهندية"میں ہے:

"ولا يجوز أن يبني بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا تمليك فيه".

(كتاب الزكوة، الباب السابع، ج: 1، ص: 188، ط: رشيدية)

"الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار"میں ہے

"(‌وصدقة ‌الفطر ‌كالزكاة في المصارف) وفي كل حال (إلا في) جواز (الدفع إلى الذمي) وعدم سقوطها بهلاك المال".

(كتاب الزكوة، باب صدقة الفطر، ص: 141، ط: دار الكتب العلمية)

"حاشية ابن عابدين"میں ہے:

"باب المصرف أي ‌مصرف ‌الزكاة ‌والعشر، وأما خمس المعدن فمصرفه كالغنائم (هو فقير، وهو من له أدنى شيء)

(قوله: أي ‌مصرف ‌الزكاة ‌والعشر) ....... وهو مصرف أيضا لصدقة الفطر والكفارة والنذر وغير ذلك من الصدقات الواجبة كما في القهستاني".

(كتاب الزكوة، باب مصرف ‌الزكاة ‌والعشر، ج: 2، ص: 339، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501100622

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں