بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

اعتکاف ٹوٹ جائے تو قضا لازم ہے


سوال

اگر کوئی شخص شدتِ تکلیف کی وجہ سے گھر والوں کے اصرار پر اعتکاف توڑ کر گھر چلاجائے تو اس کا کیاحکم ہے؟

جواب

 سنت اعتکاف ٹوٹنے کی صورت میں ایک دن ایک رات کی قضا لازم ہے،  لہٰذا اگر  کسی شخص نے مسنون اعتکاف شروع کیا اور شدتِ تکلیف کی وجہ سے گھر چلا گیا تو اس کا اعتکاف فاسد ہو جائے گا،  اسے چاہیے کہ ایک دن اور ایک رات  اس اعتکاف کی قضاکرلے ۔

اور  قضا  کا طریقہ یہ ہےکہ ایک دن، رات روزے کے ساتھ  مسجد میں اعتکاف کرے، خواہ رمضان میں کرے یا رمضان کے بعد، یعنی غروبِ آفتاب سے پہلے مسجد چلا جائے اور اگلے دن روزہ رکھے اور پھر غروبِ آفتاب کے بعد واپس آجائے، عورت گھر میں نماز کی جگہ پر اعتکاف کرلے۔ 

البتہ عید الفطر کے دن اور ایامِ تشریق (10 تا 13 ذوالحجہ) میں قضا نہ کرے، کیوں کہ ان پانچ ایام میں روزہ رکھنا شرعاً ممنوع ہے۔

یہ یاد رہے کہ اگرجان بوجھ کر بلاکسی عذر کے اعتکاف توڑدیا تو اس کی وجہ سے معتکف گناہ گار ہوگا اس پر توبہ استغفار کرنا لازم ہے۔اور اگر کسی عذر مثلاً کسی سخت بیماری یاتکلیف کی بنا پر اعتکاف توڑا تو قضالازم ہے، البتہ گناہ نہیں ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 444):
"(وحرم عليه) أي على المعتكف اعتكافاً واجباً، أما النفل فله الخروج؛ لأنه منه لا مبطل، كما مر.

(قوله: وحرم إلخ) لأنه إبطال للعبادة وهو حرام {ولا تبطلوا أعمالكم} [محمد: 33]، بدائع. (قوله: أما النفل) أي الشامل للسنة المؤكدة ح.
قلت: قدمنا ما يفيد اشتراط الصوم فيها بناء على أنها مقدرة بالعشر الأخير ومفاد التقدير أيضاً اللزوم بالشروع تأمل، ثم رأيت المحقق ابن الهمام قال: ومقتضى النظر لو شرع في المسنون أعني العشر الأواخر بنيته ثم أفسده أن يجب قضاؤه تخريجاً على قول أبي يوسف في الشروع في نفل الصلاة تناوباً أربعاً لا على قولهما اهـ أي يلزمه قضاء العشر كله لو أفسد بعضه كما يلزمه قضاء أربع لو شرع في نفل ثم أفسد الشفع الأول عند أبي يوسف، لكن صحح في الخلاصة أنه لايقضي إلا ركعتين، كقولهما، نعم اختار في شرح المنية قضاء الأربع اتفاقاً في الراتبة كالأربع قبل الظهر والجمعة وهو اختيار الفضلي وصححه في النصاب، وتقدم تمامه في النوافل، وظاهر الرواية خلافه وعلى كل فيظهر من بحث ابن الهمام لزوم الاعتكاف المسنون بالشروع، وإن لزوم قضاء جميعه أو باقيه مخرج على قول أبي يوسف، أما على قول غيره فيقضي اليوم الذي أفسده لاستقلال كل يوم بنفسه، وإنما قلنا أي باقيه بناء على أن الشروع ملزم كالنذر وهو لو نذر العشر يلزمه كله متتابعاً، ولو أفسد بعضه قضى باقيه على ما مر في نذر صوم شهر معين.
والحاصل أن الوجه يقتضي لزوم كل يوم شرع فيه عندهما بناء على لزوم صومه بخلاف الباقي؛ لأن كل يوم بمنزلة شفع من النافلة الرباعية وإن كان المسنون هو اعتكاف العشر بتمامه تأمل". 

الفتاوى التتارخانية، 2 / 414 ط: إدارة القرآن:

"و لو شرع فيه ثم قطع لايلزمه القضاء في رواية الأصل، و في واية الحسن : يلزمه، و في الظهيرية عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى : أنه يلزمه يومًا".

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح (ص: 703):
'' قوله: "بلا عذر معتبر" أي في عدم الفساد فلو خرج لجنازة محرمة أو زوجته فسد ؛ لأنه وإن كان عذراً إلا أنه لم يعتبر في عدم الفساد، قوله: "ولا إثم عليه به" أي بالعذر أي وأما بغير العذر فيأثم ؛ لقوله تعالى: ﴿ وَلَا تُبْطِلُوْآ اَعْمَالَكُمْ ﴾''۔ [محمد: 33] 
فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144109202777

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں