بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

خود کشی کرنے والے کو ایصال ثواب کرنا


سوال

میری بیوی  اپنے رشتہ دار جو کہ  غیر محرم تھا ،اس سے فون پر باتیں کرتی تھی ۔جب اس مرد کی بیوی کو پتہ چلا جو کہ میری بیوی کی خالہ زاد بہن تھی ،اس نے میری بیوی کو بہت ڈرایا دھمکایا ،ہمیں ان معاملات کا پتہ نہیں تھا، میری بیوی نے خود کشی کر لی،  میری بیوی یہ غلطی کرنے سے پہلے تو بہت نیک سیرت عورت تھی ۔اب پوچھنا یہ چاہتا ہوں کیا مرحومہ کی بخشش ہو جائے گی ؟خودکشی بہت بڑا گناہ  ہے، اور میں ایسا کیا عمل کروں کہ وہ برزخ کے عذاب سے بچ جائے اور اس کی کامل مغفرت ہو جائے ؟

جواب

    خود کشی کرنا کسی حال میں بھی جائز نہیں ہے، اس کے بارے میں احادیث میں بہت سخت وعیدیں آئی  ہیں؛  حدیثِ  مبارک میں ہے: رسول کریم ﷺ نے فرمایا:

" جس شخص نے اپنے آپ کو پہاڑ سے گرا کر خود کشی کر لی وہ شخص ہمیشہ دوزخ میں گرایا جائے گا اور وہاں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا اور کبھی اس سے نہیں نکلے گا ۔ جو شخص زہر پی کر خود کشی کرے گا اس کا زہر اس کے ہاتھ میں ہوگا جسے وہ دوزخ کی آگ میں پیے گا وہ دوزخ میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا اس سے کبھی نہیں نکلے گا ۔ اور جس شخص نے لوہے کے (کسی ) ہتھیار (جیسے چھری وغیرہ ) سے اپنے آپ کو مار ڈالا اس کا وہ ہتھیار دوزخ کی آگ میں اس کے ہاتھ میں ہوگا جس کو وہ اپنے پیٹ میں گھونپے گا اور دوزخ میں ہمیشہ رہے گا اس سے کبھی نہیں نکلے گا۔"

حدیث کاحاصل یہ ہے کہ اس دنیا میں جو شخص جس چیز کے ذریعہ خود کشی کرے گا آخرت میں اس کو ہمیشہ کے لیے اسی چیز کے عذاب میں مبتلا کیا جائے گا ۔  یہاں " ہمیشہ " سے مراد یہ ہے کہ جو لوگ خود کشی کو حلال جان کر ارتکاب کریں گے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عذاب میں مبتلا کیے جائیں گے ، یا پھر " ہمیشہ ہمیشہ " سے مراد یہ ہے کہ خود کشی کرنے والے مدت دراز تک عذاب میں مبتلا رہیں گے۔

غرض کہ خودکشی گناہ کبیرہ ہے ، لیکن اس سے آدمی دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا، اس لیے ان کے لیے دعائے مغفرت اور ایصال ثواب جائز کرنا ہے ، آپ سے جو ممکن ہوسکے آپ انہیں ایصال ثواب کریں،قرآنِ کریم کی تلاوت، ذکر و اذکار نفل نماز، نفل روزہ، نفل طواف، نفل عمرہ و حج، نفل قربانی، نیز غرباء ومساکین پر صدقہ خیرات کریں ،  یہ تمام چیزیں ایصال ثواب میں شامل ہیں۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من ‌تردى من جبل فقتل نفسه ; فهو في نار جهنم يتردى فيها خالدا مخلدا فيها أبدا، ومن تحسى سما فقتل نفسه ; فسمه في يده يتحساه في نار جهنم خالدا مخلدا فيها أبدا، ومن قتل نفسه بحديدة، فحديدته في يده يتوجأ بها في بطنه في نار جهنم خالدا مخلدا فيها أبدا ". متفق عليه

قال الطيبي رحمه الله: والظاهر أن المراد من هؤلاء الذين فعلوا ذلك مستحلين له وإن أريد منه العموم، فالمراد من الخلود والتأبيد المكث الطويل المشترك بين دوام الانقطاع له، واستمرار مديد ينقطع بعد حين بعيد لاستعمالهما في المعنيين، فيقال: وقف وقفا مخلدا مخلدا مؤبدا، وأدخل فلان حبس الأبد، والاشتراك والمجاز خلاف الأصل فيجب جعلهما للقدر المشترك بينهما للتوفيق بينه وبين ما ذكرنا من الدلائل."

(كتاب القصاص،6/ 2262،ط:دار الفكر)

البحر الرائق میں ہے:

"والأصل فیه أن الإنسان له أن یجعل ثواب عمله لغیره صلاةً أو صوماً أو صدقةً أو قراءة قرآن أو ذكراً أو حجاً أو غیر ذلك عند أصحابنا بالکتاب والسنة."

(کتاب الحج، باب الحج عن الغیر، ج:3، ص:59، ط: دار الكتاب الإسلامي)

حاشية الطحطاوي علي مراقي الفلاح"  میں ہے:

"فللإنسان أن یجعل ثواب عمله لغیره عند أهل السنة والجماعة سواء كان المجعول له حیًّا أو میتًا من غیرأن ینقص من أجره شيء. وأخرج الطبراني والبیهقي في الشعب عن ابن عمر قال: قال رسول الله ﷺ: إذا تصدق أحدكم بصدقة تطوعاً فلیجعلها عن أبویه؛ فیکون لهما أجرها ولاینقص من أجره شيء."

(کتاب الصلاة، باب أحکام الجنائز، فصل في زیارة القبور، ج:1، ص: 622، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101454

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں