زید نے اپنی بیوی ہندہ کو دوطلاقیں دیں،جن کے الفاظ یہ تھے کہ ”تجھے طلاق “ ، ابھی عدت مکمل نہیں ہوئی کہ ہندہ نے ایک مہینہ بعد بکر سے نکاح کرلیا، ڈاکٹری جانچ سے پتہ چلاکہ ہندہ ابھی سات مہینہ کی حاملہ ہےتو نکاح ثانی کا کیا حکم ہے؟ اگر جواب نفی میں ہو تو یہ حمل کس سے مانا جائے زید سے یا بکر سے؟ نیزبکر سے صحت نکاح کیلے وضع حمل شرط ہے یا ابھی فورا عقد نکاح مع استمتاع بالبضع سب جائزہے؟
واضح رہے کہ منکوحہ عورت کو اس کا شوہر طلاق دے دے تو اسے عدت مکمل کرنے کے بعد کسی اور سے نکاح کرنا جائز ہوتا ہے، یعنی اگر وہ حاملہ نہ ہو تو تین حیض گزار کر، اور حاملہ ہو تو وضع حمل (بچے کی پیدائش) کے بعد۔ لہذا مذکورہ صورت میں اگر سائل کی بات واقعتًا درست ہے کہ زید کے طلاق دینے کے ایک مہینہ بعد ہندہ نے کسی اور سے نکاح کیا تو شرعًا یہ نکاح درست نہیں ،ہندہ ابھی بھی زید کی بیوی حقیقتاً شمار ہوگی،کیوں کہ زید نے دو طلاق رجعی دی ہیں اورجب کہ ہندہ حاملہ بھی ہے،تو یہ بچہ زید ہی کا ہے،بکر سے نکاح درست ہونے کے لیے ضروری ہےکہ وضع حمل ہونے کے بعد ہندہ نئے سرے شرعی قواعد کے مطابق بکر سے نکاح کرے۔
قرآن کریم میں ہے:
"وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ كِتَابَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَأُحِلَّ لَكُمْ مَا وَرَاءَ ذَلِكُمْ أَنْ تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُمْ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ۔۔۔."
(سورة النساء24)
بدائع الصنائع میں ہے:
"ومنها أن لا تكون منكوحة الغير، لقوله تعالى: {والمحصنات من النساء} معطوفا على قوله عز وجل:{حرمت عليكم أمهاتكم} [إلى قوله: {والمحصنات من النساء} [النساء: 24] وهن ذوات الأزواج،."
(فصل أن لا تكون منكوحة الغير، ج:2، ص:268، ط: دار الكتب العلمية)
فتاوی شامی میں ہے:
"أما نكاح منكوحة الغير ومعتدته فالدخول فيه لايوجب العدة إن علم أنها للغير لأنه لم يقل أحد بجوازه فلم ينعقد أصلا."
(باب المهر، مطلب في النكاح الفاسد، ج:4، ص:132، ط:دار الفكر)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144510101952
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن