بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز عید کے بعد دعا کرکے پھر خطبہ دینا


سوال

ہماری قریبی مسجد میں گذشتہ عید الفطر کے دن امام صاحب نے نماز پڑھائی، نماز کے فوراً بعد تقریباً پانچ منٹ دعا مانگی گئی  اور خطبہ دعا کے بعد پڑھا گیا ، اس مسجد میں تقریباً تین ہزار نمازی تھے،دعا کے بعد امام صاحب نے کہا کہ اب خطبہ ہو گا،جب کہ آخری صف کےنمازی یہ سمجھ کر چلے گئے کہ عید کی نماز ہو گئی ہے۔ مزید یہ کہ خطبہ کے فوراً بعد دعا نہیں مانگی گئی ،بلکہ امام صاحب نے کہا عید مبارک، برائے مہربانی شرعی مسئلہ واضح کریں کہ جو نمازی بغیر خطبہ کے چلے گئے ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟اور یہ واضح کریں نماز کے بعد خطبہ اور دعا کا شرعی حکم کیا ہے؟ 

جواب

عید کی نماز کے بعد بھی باقی نمازوں کی طرح ہاتھ اٹھاکر دعا کرنا جائز ہے، عید کے دن دعا کا ذکر تو صحیح احادیث میں موجود ہے، لیکن روایت میں یہ تصریح نہیں ہے کہ یہ دعا عید کی نماز کے بعد خطبہ سے پہلے ہوتی تھی یا خطبہ کے بعد، اس لیے اس میں دونوں  باتوں کا اختیار ہے کہ امام اور مقتدی مل کر کسی ایک موقع پر دعا مانگ لیں، خواہ نماز کے بعد یا خطبہ کے بعد، اور جس بھی موقع پر  مانگیں اس کو دعا کے لیے مخصوص اور مسنون نہ سمجھیں، اور نماز کے بعد دعا مانگنے والے خطبہ کے بعد دعا مانگنے والوں  کو ملامت نہ کریں اور نہ ہی  خطبہ کے بعد دعا مانگنے والے نماز کے بعد دعا کرنے والوں پر طعن وتشنیع کریں۔

لہذا مذکورہ امام کا عید کی نماز کے بعد دعا کرنا بعد ازاں خطبہ دینا درست ہے ،عید کا خطبہ سننا بھی واجب ہے ، اس لیے بہتر یہ تھا کہ لوگوں کو مطلع کردیا جاتا کہ دعا کے بعد خطبہ ہوگا جسے سن کر جائیں۔تاہم اس صورت میں جن نمازیوں سے خطبے کاسننا رہ گیا ہے ان کی نماز درست ہوگئی ہے ،۔

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں  :

 ”واقعی بعد نماز عید یاخطبہ دعا مانگنا بالخصوص منقول تو نہیں دیکھا گیا اور دعوتهم سے  استدلال ناتمام ہے، کیوں کہ اس میں کسی محل کی تصریح نہیں کہ یہ دعا کس وقت ہوتی ہے، پھر محل خاص میں ان کے ہونے پر استدلال کرنا ظاہر ہے کہ غیر تمام ہے، ممکن ہے کہ یہ دعا وہ ہو جو نماز کے اندریاخطبہ کے اندر عام صیغوں سے کی جاتی ہے جو سب مسلمانوں کوشامل ہوتی ہے اور حاضرین پر اس کے برکات اول فائض ہوتے ہیں، لیکن بالخصوص منقول نہ ہونے سے حکم ابتداع کا بھی مشکل ہے؛ کیوں کہ عموماتِ نصوص سے فضیلت دعا بعد الصلاۃ کی ثابت ہے، پس اس عموم میں اس کے داخل ہونے کی گنجائش ہے، اوراگرکوئی شخص بالخصوص منقول نہ ہونے کے سبب اس کو ترک کرے اس پر بھی ملامت نہیں ۔ بہرحال یہ مسئلہ ایسا مہتم بالشان نہیں ہے دونوں جانب میں توسع ہے۔"

(امداد الفتاوی، 1/405، ط: دارالعلوم کراچی)

مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں :

”(سوال )  عیدین کے بعد دعا مانگنا ثابت ہے یا نہیں ؟  اگر نہیں تو الدعاء مخ العبادات کا کیا مطلب ہوا؟  المستفتی نمبر ۷۹۱ محمد نور صاحب (ضلع جالندھر) ۷ ذی الحجہ ۱۳۵۴؁ھ م ۲ مارچ ۱۹۳۶؁ء  
(جواب ۴۷۶)  عیدین کے بعد دعا مانگنے کا فی الجملہ تو ثبوت ہے، مگر تعین موقع کے ساتھ ثبوت نہیں کہ نماز کے بعد یا خطبہ کے بعد دونوں موقعوں میں سے کسی ایک موقع پر دعا مانگنے میں مضائقہ نہیں ہے “۔

(کفایت المفتی 3/251، ط: مکتبہ حقانیہ)

فتاوی شامی میں ہے :

’’وكذا يجب الاستماع لسائر الخطب كخطبة نكاح وختم وعيد على المعتمد ا هـ .‘‘

(ج:1ص:545،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411100025

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں