بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

عدت وفات میں بیوہ کا گھر سے باہر رات گزارنا


سوال

میرے سسر کا انتقال دوماہ قبل ہواہے۔  ویسے تو میری ساس ماشاء اللہ بہت عبادت گزار ہیں۔ سوال یہ ہےکہ ہم پیرس میں رہتے ہیں انکی سیدھے ہاتھ کے بازوکی ہڈی میں تکلیف ہے ،  اس کا علاج چل رہا  ہےں، اس وقت وہ کافی بہتر ہیں وہ اپنے گھر سے میرے گھر آ کے رہتی ہیں  جبکہ انکا گھر ڈاکٹر کے کلینک سے بس 10 کلومیٹر ہی دور ہے، اور انکا بیٹا بھی انکو لے کے آ جا بھی سکتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شوہر کے انتقال کی صورت میں بیوہ پر  چار ماہ، دس دن عدت میں بیٹھنا لازم ہے، اس دوران  بغیر کسی شرعی عذر   کے گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے،تاہم شرعی عذر  (مثلاً سخت بیماری کی وجہ سے ڈاکٹرکے پاس جاناہو، یا گھر کے منہدم ہونے کا خطرہ ہو، یا کرایہ نہ ہونے کی صورت میں مکان خالی کرنا ہو،وغیرہ) کی وجہ سے نکلنے کی گنجائش ہے، لیکن رات بہرحال شوہر کے گھر میں گزارنا ضروری ہے۔ سائل کے گھر رات گزارنا  جائز نہیں ، گناہ ہے۔ سائل اپنی ساس کو یہ مسئلہ سمجھادیں۔لہذا صورت مسئولہ میں سائل کی ساس  علاج کے لئے ڈاکٹر کے پاس جاسکتی ہے،لیکن رات شوہر کے گھر گزارنا ضروری ہے،اگر ہڈی بہتر ہے اور عدت کا زمانہ  آرام سے گزر سکتا ہے اور دوران عدت علاج جاری نہ رکھنے سے نقصان کا اندیشہ نہیں ہے تو پھر علاج کے لیے نکلنا جائز نہ ہوگا۔

الدر المختار  میں ہے:

"(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولا يخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لا تجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه".

(الدر المختار مع رد المحتار: كتاب الطلاق، باب العدة، فصل في الحداد (3/ 536)، ط. سعيد)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"(قوله: ومعتدة الموت تخرج يوما وبعض الليل) لتكتسب لأجل قيام المعيشة؛ لأنه لا نفقة لها حتى لو كان عندها كفايتها صارت كالمطلقة فلايحل لها أن تخرج لزيارة ولا لغيرها ليلًا ولا نهارًا.

والحاصل: أن مدار الحل كون خروجها بسبب قيام شغل المعيشة فيتقدر بقدره فمتى انقضت حاجتها لا يحل لها بعد ذلك صرف الزمان خارج بيتها كذا في فتح القدير، وأقول: لو صح هذا عمم أصحابنا الحكم فقالوا: لاتخرج المعتدة عن طلاق أو موت إلا لضرورة؛ لأن المطلقة تخرج للضرورة بحسبها ليلا كان أو نهارا، والمعتدة عن موت كذلك فأين الفرق؟ فالظاهر من كلامهم جواز خروج المعتدة عن وفاة نهارا، ولو كانت قادرة على النفقة، ولهذا استدل أصحابنا بحديث «فريعة بنت أبي سعيد الخدري - رحمه الله تعالى - أن زوجها لما قتل أتت النبي صلى الله عليه وسلم فاستأذنته في الانتقال إلى بني خدرة، فقال لها: امكثي في بيتك حتى يبلغ الكتاب أجله»، فدل على حكمين إباحة الخروج بالنهار، وحرمة الانتقال حيث لم ينكر خروجها ومنعها من الانتقال، وروى علقمة أن نسوة من همدان نعي إليهن أزواجهن فسألن ابن مسعود - رضي الله عنه - فقلن: إنا نستوحش فأمرهن أن يجتمعن بالنهار، فإذا كان بالليل فلترجع كل امرأة إلى بيتها كذا في البدائع، وفي المحيط عزاء الثاني إلى النبي صلى الله عليه وسلم، وفي الجوهرة: يعني ببعض الليل مقدار ما تستكمل به حوائجها، وفي الظهيرية: والمتوفى عنها زوجها لا بأس بأن تتغيب عن بيتها أقل من نصف الليل، قال شمس الأئمة الحلواني: وهذه الرواية صحيحة اهـ. و لكن في الخانية والمتوفى عنها زوجها تخرج بالنهار لحاجتها إلى نفقتها ولا تبيت إلا في بيت زوجها اهـ. فظاهره أنها لو لم تكن محتاجة إلى النفقة لايباح لها الخروج نهارًا كما فهمه المحقق."

(البحر الرائق: كتاب الطلاق، باب العدة، فصل فى الاحداد(4/ 166)،ط. دارالكتاب الاسلامى)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100679

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں