بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قمری مہینہ کی آخری تاریخ کو شوہر کا انتقال ہونے کی صورت میں عدتِ وفات کا حساب اور حکم


سوال

میرے سسر کا انتقال 16 نومبر کو ہوا تھا تو میری ساس کی عدت کب تک ختم ہوگی؟ میری ساس کو عدت سے نکل کر کہیں جانا چاہیے؟ منہ بولے بھائی نے کہا ہے کہ ہمارے گھر آنا ۔ اور عدت سے نکلنے کا  کوئی وقت ہوتا ہے یعنی عصر تک کا یا کچھ؟

جواب

واضح رہے کہ اگرکسی عورت کے  شوہر کا انتقال قمری (اسلامی) مہینے کی ابتدا یعنی پہلی تاریخ میں ہوا ہو، تو اس عورت کو  چاند کے مہینوں کے اعتبار سے چار ماہ دس دن  عدت  پوری کرنا لازم ہوگی، خواہ کوئی مہینہ انتیس کا ہی کیوں نہ ہو۔ اور اگر شوہر کا انتقال مہینے کے درمیان میں ہوا ہو تو   کل 130 دن شمار کرکے عدت گزارنا لازم ہوگا۔

 صورتِ مسئولہ میں  چوں کہ آپ کے سسر کا انتقال  16 نومبر 2020ء کو ہوا ہے، اور 16 نومبر کو  قمری مہینہ کی تاریخ   29 ربیع الاول 1442ھ تھی،  اور  یہ مہینہ بھی 29 کا تھا، لہذا  اگر آپ کے سسر کا انتقال  16 نومبر کو مغرب سے پہلے ہوا ہو تو آپ کی ساس  پر 130 دن عدت گزارنا لازم ہوگا، اس صورت میں آپ کی ساس کی عدت  26 مارچ 2021ء کو   اس وقت مکمل ہوجائے گی  جس وقت16 نومبر 2020ء کو اس کے شوہر کا  انتقال ہوا تھا۔

اور  آپ کے سسر کا انتقال  16 نومبر کو مغرب  کے بعد ہوا ہو ، تو اس وقت چوں کہ  قمری مہینہ کی یکم ربیع الثانی کی ابتدا  تھی اس لیے آپ کی ساس پر قمری مہینہ کے اعتبار سے چار ماہ دس دن عدت  گزارنا لازم ہوگا، اور اس صورت میں  دس شعبان  1442ھ کو مغرب کے بعد آپ کی ساس کی عدت مکمل ہوجائے گی۔

باقي عدت کے دن جب ختم ہوجائیں تو عدت ختم ہوجاتی ہے یعنی عدت کی وجہ سے جو پابندیاں عورت پر لازم تھیں اب وہ پابندیاں نہیں رہیں، اس کے لیے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ اگر اس موقع پر کسی چیز کو شرعاً   لازم اور ضروری سمجھ کر کیا جائے تو  یہ عمل ناجائز ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 510):

"(و) العدة (للموت أربعة أشهر) بالأهلة لو في الغرة كما مر (وعشر) من الأيام بشرط بقاء النكاح صحيحا إلى الموت (مطلقًا).

(قوله: والعدة للموت) أي موت زوج الحرة، أما الأمة فيأتي حكمها بعيده (قوله: كما مر) أي قريبا (قوله: من الأيام) أي والليالي أيضًا كما في المجتبى.

وفي غرر الأذكار: أي عشر ليال مع عشرة أيام من شهر خامس. وعن الأوزاعي أن المقدر فيه عشر ليال لدلالة حذف التاء في الآية عليه فلها التزوج في اليوم العاشر. قلنا إن ذكر كل من الأيام والليالي بصيغة الجمع لفظا، أو تقديرا يقتضي دخول ما يوازيه استقراء اهـ ومثله في الفتح، وما مر عن الأوزاعي عزاه في الخانية لابن الفضل وقال إنه أحوط لأنه يريد بليلة: أي لو مات قبل طلوع الفجر فلا بد من مضي الليلة بعد العاشر. وعلى قول العامة تنقضي بغروب الشمس كما في البحر، وفيه نظر، بل هو مساو لقول العامة لما علمت من التقدير بعشرة أيام وعشر ليال.

وقد ينقص عن قولهم لو فرض الموت بعد الغروب فكان الأحوط قولهم لا قوله."

وفیه أیضًا(3/ 509):

"في المحيط: إذا اتفق عدة الطلاق و الموت في غرة الشهر اعتبرت الشهور بالأهلة وإن نقصت عن العدد، وإن اتفق في وسط الشهر، فعند الإمام يعتبر بالأيام، فتعتد في الطلاق بتسعين يوماً، وفي الوفاة بمائة وثلاثين". 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207200734

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں