بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عدت کے دوران مدرسہ پڑھانے کے لیے جانا


سوال

میرے شوہر حال ہی میں یکم جنوری2022ءکوانتقال کر گئے ہیں،انہوں نے میراث میں تین منزلہ گھر چھوڑا ہے،جس کے گراؤنڈ فلور پر میں اپنے اکلوتے بیٹے کے ساتھ رہتی ہوں اور باقی دو منزلیں کرایہ پر ہیں،جن سے ماہانہ26ہزار روپےکرایہ کی مد میں وصول ہوتے ہیں،میں ماہانہ20ہزار کی بی سی بھی بھرتی ہوں،گھر چلانے کے لیے کھانے پینے کا ماہانہ خرچہ20ہزار تک ہوجاتا ہے،جب کہ بجلی گیس کے بل کا خرچہ8ہزار تک اس سے الگ ہوتا ہے،بیٹے کے مدرسہ آنے جانے کا خرچہ بھی تقریباً6ہزار تک ہوجاتا ہے،یوں اگر ان سب کو جمع کیا جائے تو34ہزار تک خرچہ بن جاتا ہےاور اگر کمیٹی کے 20ہزار کو بھی شامل کرلیا جائے توخرچہ پچاس ہزار سے زائد ہوجاتا ہے،ابھی فوراً بیٹے کو یونیورسٹی میں ایڈمیشن دلوانا ہے،جس کے لیے تقریباً70سے80ہزار روپے الگ سے درکار ہوں گے،بیٹابضد اور مصرہے کہ اسے ابھی یونیورسٹی میں ایڈ مشن ضرور چاہیے۔

میرے شوہر نے اپنی زندگی کے تین سے چار سال معذوری کی حالت میں گزارے ہیں،میں تقریباً15سے20سال سےلگاتار ایک دینی ادارے میں مدرسہ پڑھارہی ہوں اور شعبۂ تحفیظ کی نگرانی کا کام سرانجام دے رہی ہوں اور یوں اگر دیکھا جائے تو مدرسہ میں بھی250بچیاں ہیں،جن کی نگرانی مجھے کرنی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ  ان حالات میں مجھے عدت کے دوران کسبِ معاش کے لیے مدرسہ پڑھانے جانے کی شرعاًاجازت مل سکتی ہےیا نہیں؟

میرا بیٹا ابھی19 سال کا ہےاور پڑھ رہا ہے۔

وضاحت:سائلہ کے پاس نقدی کوئی رقم نہیں ہے،نیز وہ جو بی سی بھر رہی ہے،اس کو ختم بھی نہیں کرسکتی اور مدرسہ والے اس کو رخصت دینے اور اس کا کوئی متبادل رکھنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعتًا  سائلہ کا بیان صحیح اوردرست ہے کہ اس کے پاس کوئی نقد رقم موجود نہیں ہےاوروہ کسبِ معاش کے لیے شدید مجبور ہےاور مدرسہ والے بھی اس کو رخصت دینے اور اس کا متبادل رکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو اس صورت میں سائلہ کے لیے دورانِ عدت کسبِ معاش کے لیےپردہ کے ساتھ گھر سے نکلنے کی اجازت ہوگی،البتہ سائلہ پر لازم ہوگا کہ طلوعِ آفتاب کے بعد گھر سے نکلے اور مغرب سے پہلے پہلےگھر واپس آجائے،رات گھر میں ہی گزارنا ضرری ہے۔

الدر المختار میں ہے:

"(ومعتدة موت تخرج في الجديدين وتبيت) أكثر الليل (في منزلها) لأن نفقتها عليها فتحتاج للخروج، حتى لو كان عندها كفايتها صارت كالمطلقة فلا يحل لها الخروج فتح.....(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) و لايخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لا تجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه."

(كتاب الطلاق، باب العدة، فصل في الحداد، ج:3، ص:536، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100306

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں