بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عدت کے بعد مطلقہ عورت کا نفقہ کس کے ذمہ لازم ہے؟


سوال

مطلقہ عورت جو کمانے پر قادر ہے اور جس کی عدت گزر چکی ہے، اس کے 2 بیٹے اور 2 بھائی ہیں جو کمانے پر قادر ہیں ،تو اس کا نفقہ کس کے ذمہ ہے، بیٹوں کے یا بھائیوں کے یا خود اسی کے ذمہ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ خاتون کا نفقہ اس کے بیٹوں کے ذمہ لازم ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"فالأصل أنه متى اجتمع الأقرب والأبعد؛ فالنفقة على الأقرب في قرابة الولادة وغيرها من الرحم المحرم فإن استويا في القرب ففي قرابة الولادة يطلب الترجيح من وجه آخر وتكون النفقة على من وجد في حقه نوع رجحان فلا تنقسم النفقة عليهما على قدر الميراث وإن كان كل واحد منهما وارثا، وإن لم يوجد الترجيح فالنفقة عليهما على قدر ميراثهما."

(كتاب النفقة، فصل في سبب وجوب هذه النفقة، ج:٤، ص:٣٢، ط:دار الكتب العلمية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(و) تجب (على موسر) ولو صغيرا (يسار الفطرة) على الأرجح...(النفقة لأصوله)...(الفقراء) ولو قادرين على الكسب."

"(قوله ولو قادرين على الكسب) جزم به في الهداية، فالمعتبر في إيجاب نفقة الوالدين مجرد الفقر."

(کتاب الطلاق، باب النفقة، ج:٣، ص٦٢١، ط:سعید)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"ويجبر الولد الموسر على نفقة الأبوين المعسرين مسلمين كانا، أو ذميين قدرا على الكسب، أو لم يقدرا...والأم إذا كانت فقيرة فإنه يلزم الابن نفقتها، وإن كان معسرا."

(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الخامس في نفقة ذوي الأرحام، ج:١، ص:٥٦٤/ ٥٦٥، ط:رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144505100608

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں