بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عدت کی ابتدا کس وقت ہوگی؟


سوال

میرے داماد کا انتقال 26 اگست 2021 بمطابق 17 محرم کو صبح 5 بجے ہوا تھا، میری بیٹی اس وقت عدت میں ہے، معلوم یہ کرنا ہے کہ اس کی عدت کس دن اور کس وقت پوری ہوگی؟ کیا عدت کے ختم ہونے کا وقت انتقال کے وقت سے شروع ہوتا ہے یا میت گھر سے جانے کے وقت شروع ہوتا ہے۔

جواب

صورت مسئولہ میں جس عورت کے شوہر کا انتقال چاند کی پہلی تاریخ کو  ہوجائےتو  اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے بشرطیکہ وہ حاملہ نہ ہو، اگر وہ حمل سے ہے تو اس صورت میں اس کی عدت بچہ کی پیدائش تک ہوگی اور اگر شوہر کا انتقال چاند کی پہلی تاریخ کے بعد ہوا ہو یعنی دوسری تیسری تایخ وغیرہ کو ہوا ہو تو اس کی عدت ایک سو تیس دن ہے اور  عدت کی ابتداء جس وقت شوہر کا انتقال ہو اس وقت سے ہے ، میت کے گھر سے جانے کے وقت سے نہیں، لہذا سائل کی بیٹی کی عدت جس دن داماد کا انتقال ہوا اس دن سے ایک سو تیس (130) تک ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ابتداء العدة في الطلاق عقيب الطلاق وفي الوفاة عقيب الوفاة، فإن لم تعلم بالطلاق أو الوفاة حتى مضت مدة العدة فقد انقضت عدتها كذا في الهداية"۔

(کتاب الطلاق، الباب الثالث عشر في العدة: 1/ 531، 532، ط: ماجدیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) العدة (للموت أربعة أشهر) بالأهلة لو ‌في ‌الغرة ‌كما ‌مر (وعشر) من الأيام بشرط بقاء النكاح صحيحا إلى الموت (مطلقا) وطئت أو لا ولو صغيرة، أو كتابية تحت مسلم ولو عبدا فلم يخرج عنها إلا الحامل"۔

(کتاب الطلاق، باب العدۃ: 3/ 510، ط: سعید)

وفیہ ایضا:

"(قوله: وإلا فبالأيام) في المحيط: إذا اتفق عدة الطلاق والموت في غرة الشهر اعتبرت الشهور بالأهلية وإن نقصت عن العدد، وإن اتفق في ‌وسط ‌الشهر. فعند الإمام يعتبر بالأيام فتعتد في الطلاق بتسعين يوما، وفي الوفاة بمائة وثلاثين"۔

(کتاب الطلاق، باب العدۃ: 3/ 509، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100279

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں