بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عدت کس صورت میں واجب ہے؟


سوال

عدت کس صورت میں واجب ہے؟

جواب

واضح رہے کہ فقہاء نے جن صورتوں میں عدت واجب ہونے کا کہا ہےوہ بیس کے قریب صورتیں بنتی  ہیں،عمومًا  جو صورتیں  پیش آتی ہیں وہ دو ہیں۔

(1)جب شوہر مرجائے  اور بیوی حاملہ نہ ہو تو بیوی پر چار مہینہ دس دن عدت لازم ہوتی ہے۔

(2)جب میاں بیوی میں طلاق یا خلع وغیرہ کے ذریعہ جدائی ہوجائے تو اس صورت میں عدت اگر حمل نہ ہو تو تین ماہواریاں ہے،اور اگر حمل ہو تو وضع حمل(بچہ کی پیدائش)تک عدت لازم ہوتی ہے۔

اگر ان صورتوں کےعلاوہ کوئی اور صورت ہے تو لکھ کر بھیج دی جائے جواب دے دیا جائےگا۔

قرآن کریم میں ہے:

"وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ وَأُوْلَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ."(سورة طلاق، ايت 4)

ترجمہ:"تمہاری بیبیوں میں جو عورتیں جو بوجہ  زیادہ عمر ہونے کے حیض آنے سے ناامید ہوچکی ہیں،تم اگر ان کی تعین عدت میں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہےاور اسی طرح جن عورتوں ــ(بوجہ کم عمری کے) حیض نہیں آیا اور حاملہ عورت کی عدت اس کے حمل کا پیدا ہوجانا ہے۔"(بیان القران ،ج:3، ص:563)

وفیہ ایضا:

"وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ."(سورة بقره اية 169)

ترجمہ:"اور وہ لوگ جو تم میں سے وفات پاجاتے ہیں اور بیبیاں چھوڑ جاتے ہیں وہ بیبیاں اپنے آپ کو (نکاح وغیرہ سے)روکے رکھیں چار مہینےاور دس دن پھر جب اپنی میعاد ختم کرلیں تو تم کو کچھ نہ ہوگا۔"(بیا ن القران)

الدر مع الرد میں ہے:

"(و) العدة (للموت أربعة أشهر) بالأهلة لو في الغرة كما مر (وعشر) من الأيام بشرط بقاء النكاح صحيحا إلى الموت (مطلقا) وطئت أو لا ولو صغيرة."

(باب العدة، ص510، ج:3، ط:سعيد)

وفیہ ایضا:

"(و) في حق (الحامل) مطلقا ولو أمة، أو كتابية، أو من زنا بأن تزوج حبلى من زنا ودخل بها ثم مات، أو طلقها تعتد بالوضع جواهر الفتاوى (وضع) جميع (حملها)."

(باب العدة، ص:511، ج:3، ط:سعيد)

وفیہ ایضا:

"وأنواعها حيض، وأشهر، ووضع حمل كما أفاده بقوله (وهي في) حق (حرة) ولو كتابية تحت مسلم (تحيض لطلاق) ولو رجعيا (أو فسخ بجميع أسبابه)ومنه الفرقة بتقبيل ابن الزوج نهر (بعد الدخول حقيقة، أو حكما) أسقطه في الشرح، وجزم بأن قوله الآتي " إن وطئت " راجع للجميع (ثلاث حيض كوامل) لعدم تجزي الحيضة، فالأولى لتعرف براءة الرحم، والثانية لحرمة النكاح، والثالثة لفضيلة الحرية."

(ص:505، ج:3، ط:سعيد)

النتف فی الفتاوی للسغدی:

"وعدة النساء على عشرين وجها."

(كتاب العدة،ص:329، ج:1، ط:دار الفرقان)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144311101947

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں