بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

عدت کی مدت


سوال

 جناب طلاق کی عدت کے بارے میں کیا حکم ہے اور اس کی صحیح مدت کتنی ہے ؟ اور جو عورت جاب کرتی ہو اور جاب چھوڑ نہ سکتی ہو اس عورت کیلۓ عدت کا کیا حکم ہے(وہ کس طرح اپنی عدت کرے)؟

جواب

طلاق کی عدت  مندرجہ ذیل ہے:

۱) اگر مطلقہ عورت حاملہ ہے تو بچہ کی پیدائش تک عدت ہے۔ بچہ کی پیدائش ہوتے ہیں عدت ختم ہوجائے گی۔

۲) اگر حاملہ نہ ہو  اور ماہواری آتی ہو تو پھر مکمل تین ماہواریاں عدت ہے۔تیسری ماہواری کے بعد عدت ختم ہوجائے گی۔

۳) اگر حیض نہ آتا ہو بڑھاپے(عورت ۵۵ سال یا اس سے زیادہ عمر کی ہو)  کی وجہ سے تو پھر تین مہینے عدت  ہے۔

مطلقہ عورت کا نان نفقہ عدت کے دوران شوہر پر واجب ہے لہذ امطلقہ عورت کو عدت کے دوران  جاب کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ہاں اگر نان نفقہ کا کوئی انتظام نہ ہو پھر عورت کو صرف دن میں پردہ کے ساتھ نکل کر جائز طریقہ سے نان نفقہ کے انتظام کرنے کی اجازت ہوگی اور سورج غروب ہونے سے پہلے  پہلے واپس آنا لازم ہوگا ۔ 

وفات کی عدت میں ترکہ یا دوسرے ذرائع سے نان نفقہ کا انتظام کرنا ممکن ہو تو عدت کے ایام میں گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں  ہوگی اور اگر کوئی انتظام نہیں ہےپھر دن میں پردہ کے ساتھ معاش کے لئے نکلنے کی اجازت ہوگی اور سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے واپس آنا لازم ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"والعدة لمن لم تحض لصغر أو كبر أو بلغت بالسن ولم تحض ثلاثة أشهر كذا في النقاية.....إذا وجبت العدة بالشهور في الطلاق والوفاة فإن اتفق ذلك في غرة الشهر اعتبرت الشهور بالأهلة، وإن نقص العدد عن ثلاثين يوما، وإن اتفق ذلك في خلاله فعند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وإحدى الروايتين عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - يعتبر في ذلك عدد الأيام تسعون يوما في الطلاق."

(کتاب الطلاق باب العدۃ ج نمبر ۱ ص نمبر ۵۲۶، دار الفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وعدة الحامل أن تضع حملها كذا في الكافي. سواء كانت حاملا وقت وجوب العدة أو حبلت بعد الوجوب كذا في فتاوى قاضي خان."

(کتاب الطلاق باب العدۃ ج نمبر ۱ ص نمبر ۵۲۸، دار الفکر)

الدر المختار میں ہے:

"و) الإياس (سنة) للرومية وغيرها (خمس وخمسون) عند الجمهور وعليه الفتوى."

(فتاوی شامی، کتاب الطلاق ، باب العدۃ ج نمبر ۳ ص نمبر ۵۱۵،ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولا تخرج معتدة رجعي وبائن) بأي فرقة كانت على ما في الظهيرية ولو مختلعة على نفقة عدتها في الأصح اختيار، أو على السكنى فيلزمها أن تكتري بيت الزوج معراج (لو حرة) أو أمة مبوأة ولو من فاسد (مكلفة من بيتها أصلا) لا ليلا ولا نهارا ولا إلى صحن دار فيها منازل لغيره ولو بإذنه لأنه حق الله تعالى

(قوله: ولو بإذنه) تعميم أيضا لقوله ولا تخرج، حتى إن المطلقة رجعيا وإن كانت منكوحة حكما لا تخرج من بيت العدة."

(فتاوی شامی، کتاب الطلاق ، باب العدۃ ج نمبر ۳ ص نمبر ۵۳۵،ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100436

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں