بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عدت کے مسائل


سوال

عدت کے مسائل عدت کے  کون سے احکامات ہیں؟

جواب

جس کے شوہر کا انتقال ہوجائے اگر چاند کی پہلی تاریخ کو انتقال ہوا ہو تو عدت چار ماہ دس دن ہوتی ہے خواہ مہینہ انتیس کا ہو یا تیس کا مہینہ ہو اور اگر چاندکی پہلی تاریخ کے بعد ہوا ہو تو ایک سو تیس دن عدت ہوتی ہے  اور جس عورت کو شوہر نے طلاق دی ہو اس کی عدت مکمل تین ماہواریاں ہیں اگر حمل نہ ہواور اگر کم عمری یا عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے ماہواری نہیں آتی  تو پھر تین مہینے ہیں  اور اگر وہ حاملہ ہو تو اس کی عدت بہرصورت وضع حمل ہے (خواہ طلاق کی عدت ہو یا وفات کی عدت ہو)۔

عدت کے دوران عورت کے لیے کسی اور جگہ نکاح کرنا جائز نہیں ہے،  اور کسی مرد کا ایسی مطلقہ / بیوہ عورت کو نکاح کا صراحتاً  پیغام دینا بھی جائز نہیں ہے۔

عدت کے دوران عورت کے لیے شدید ضرورت کے بغیر گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے۔

عدت وفات میں اور مطلقہ بائنہ  کے لیے عدت میں  زیب وزینت، بناؤسنگھار  کرنا، خوشبو لگانا، اور  نئے کپڑے وغیرہ پہننا جائز نہیں ہے۔ 

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"عدة الحرة في الوفاة أربعة أشهر وعشرة أيام سواء كانت مدخولا بها أو لا مسلمة أو كتابية تحت مسلم صغيرة أو كبيرة أو آيسة وزوجها حر أو عبد حاضت في هذه المدة أو لم تحض ولم يظهر حبلها كذا في فتح القدير. هذه العدة لا تجب إلا في نكاح صحيح كذا في السراج الوهاج"

(کتاب الطلاق ، الباب الثالث عشر فی العدۃ جلد ۱ ص: ۵۲۹ ط: دارالفکر)

وفیہ ایضا:

"إذا طلق الرجل امرأته طلاقا بائنا أو رجعيا أو ثلاثا أو وقعت الفرقة بينهما بغير طلاق وهي حرة ممن تحيض فعدتها ثلاثة أقراءز......والعدة لمن لم تحض لصغر أو كبر أو بلغت بالسن ولم تحض ثلاثة أشهر .......وعدة الحامل أن تضع حملها كذا في الكافي"

(کتاب الطلاق ، الباب الثالث عشر فی العدۃ جلد ۱ص: ۵۲۶ ، ۵۲۷ ،۵۲۸ ط: دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(إذا كانت معتدة بت، أو موت) وإن أمرها المطلق، أو الميت بتركه لأنه حق الشرع، إظهارا للتأسف على فوات النكاح (بترك الزينة) بحلي أو حرير، أو امتشاط بضيق الأسنان (والطيب) وإن لم يكن لها كسب إلا فيه (والدهن) ولو بلا طيب كزيت خالص (والكحل والحناء ولبس المعصفر والمزعفر) ومصبوغ بمغرة، أو ورس (إلا بعذر)راجع للجميع (قوله: راجع للجميع) فإن كان وجع بالعين فتكتحل، أو حكة فتلبس الحرير، أو تشتكي رأسها فتدهن وتمشط بالأسنان الغليظة المتباعدة من غير إرادة الزينة لأن هذا تداو لا زينة جوهرة. قال في الفتح: وفي الكافي إلا إذا لم يكن لها ثوب إلا المصبوغ فإنه لا بأس به لضرورة ستر العورة، لكن لا تقصد الزينة."

(کتاب الطلاق ، فصل فی الحداد جلد ۳ ص: ۵۳۲ ، ۵۳۳ ط: دارالفکر)

درالمختار  میں ہے:

"(ولا تخرج معتدة رجعي وبائن) بأي فرقة كانت على ما في الظهيرية ولو مختلعة على نفقة عدتها في الأصح اختيار، أو على السكنى فيلزمها أن تكتري بيت الزوج معراج (لو حرة).....(مكلفة من بيتها أصلا) لا ليلا ولا نهارا ولا إلى صحن دار فيها منازل لغيره ولو بإذنه لأنه حق الله تعالى.....(ومعتدة موت تخرج في الجديدين وتبيت) أكثر الليل (في منزلها) لأن نفقتها عليها فتحتاج للخروج، حتى لو كان عندها كفايتها صارت كالمطلقة فلا يحل لها الخروج فتح. وجوز في القنية خروجها لإصلاح ما لا بد لها منه."

(کتاب الطلاق ، فصل فی الحداد جلد ۳ ص: ۵۳۵ ، ۵۳۶ ط: دارالفکر)

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144402101438

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں