بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

عدت کے دوران شادی میں شرکت کرنا


سوال

عدت چار ماہ دس دن تھی، چار ماہ گزر گئے اور صرف دس دن باقی رہے، تو کیا عورت اپنی عدت کے آخری ایام میں شادی وغیرہ جیسی تقریبات میں شرکت کر سکتی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ بیوہ عورت پر اپنے شوہر کے انتقال کے دن سے (قمری اعتبار سے) چار مہینے  دس دن عدت گزارنا لازم ہے، اور اس دوران اس کے لیے   شدید ضرورت کے بغیر گھر سے نکلنا،  زیب وزینت، بناؤسنگھار  کرنا، خوش بو  لگانا، اور  نئے کپڑے وغیرہ پہننا جائز نہیں ہے، چاہے عدت پوری ہونے میں ایک دن ہی کیوں نہ باقی ہو۔

لہٰذا اگر عدت کے دوران بیوہ کے اقرباء میں کسی کی شادی کی تقریب ہو، تو اپنے عدت والے  گھر کے اندر ہی بغیر بناؤ سنگھار کے وہ  اس میں شریک ہوسکتی ہیں، لیکن اس مقصد کے لیے عدت کے دوران گھر سے باہر  جانا شرعاً جائز نہیں ہے۔

  البحر الرائق  میں ہے :

"وجب في الموت إظهاراً للتأسف علی فوات نعمة النکاح؛ فوجب علی المبتوتة إلحاقاً لها بالمتوفی عنها زوجها بالأولی؛ لأن الموت أقطع من الإبانة ... دخل في ترک الزینة الامتشاط بمشط أسنانه ضیقة لا الواسعة، کما في المبسوط، وشمل لبس الحریر بجمیع أنواعه وألوانه ولو أسود، وجمیع أنواع الحلي من ذهب وفضة وجواهر، زاد في التاتارخانیة القصب".

(۴/۲۵۳، کتاب الطلاق ، فصل فی الإحداد)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 536):

"(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولايخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لاتجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه".

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144202201349

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں