بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عدت کے دوران پوتے کی شادی میں شرکت کا حکم


سوال

 کیا دادا کے انتقال کے بعد دادی اپنے پوتے کی شادی میں دوران عدت شرکت کرنے جا سکتی ہے ؟ یاد رہے کے شادی ہال پہلے ہی بک ہوچکا ہے ۔ اور کئی رشتہ دار / مہمان جو کے باہر ملکوں میں رہتے ہیں انہوں نے اپنے ٹکٹ بھی ایڈوانس میں لے لیے ہیں ۔ ایسی صورت میں کیا گنجائش ہے؟  برائے  مہر بانی رہنمائی  کیجیے!

جواب

صورتِ  مسئولہ  میں  عدت کے دوران دادی کے لیے  اپنے پوتے  کی شادی میں شرکت کی غرض سے گھر  سے نکلنا اور شادی ہال میں جانا شرعًا جائز نہیں ہے۔  پوتے کی شادی ، ہال کی بکنگ اور مہمانوں کا باہر سے آنا  شرعًا ایسا عذر نہیں ہے جس کی وجہ سے گھر سے نکلنے کی اجازت ہو، بلکہ پوتا خود اپنی دادی کے پاس جا کر ان سے  دعا لے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ومعتدة موت تخرج في الجديدين وتبيت) أكثر الليل (في منزلها) لأن نفقتها عليها فتحتاج للخروج، حتى لو كان عندها كفايتها صارت كالمطلقة فلا يحل لها الخروج فتح. وجوز في القنية خروجها لإصلاح ما لا بد لها منه كزراعة ولا وكيل لها»

قوله: لأن نفقتها عليها) أي لم تسقط باختيارها، بخلاف المختلعة كما مر وهذا بيان للفرق بين معتدة الموت ومعتدة الطلاق. قال في الهداية: وأما المتوفى عنها زوجها فلأنه لا نفقة لها فتحتاج إلى الخروج نهارا لطلب المعاش وقد يمتد إلى أن يهجم الليل ولا كذلك المطلقة لأن النفقة دارة عليها من مال زوجها. اهـ.

قال في الفتح: والحاصل أن مدار حل خروجها بسبب قيام شغل المعيشة فيتقدر بقدره، فمتى انقضت حاجتها لا يحل لها بعد ذلك صرف الزمان خارج بيتها. اهـ. وبهذا اندفع قول البحر إن الظاهر من كلامهم جواز خروج المعتدة عن وفاة نهارا ولو كان عندها نفقة، وإلا لقالوا: لا تخرج المعتدة عن طلاق، أو موت إلا لضرورة فإن المطلقة تخرج للضرورة ليلا، أو نهارا اهـ.

ووجه الدفع أن معتدة الموت لما كانت في العادة محتاجة إلى الخروج لأجل أن تكتسب للنفقة قالوا: إنها تخرج في النهار وبعض الليل، بخلاف المطلقة. وأما الخروج للضرورة فلا فرق فيه بينهما كما نصوا عليه فيما يأتي، فالمراد به هنا غير الضرورة، ولهذا بعدما أطلق في كافي الحاكم منع خروج المطلقة قال: والمتوفى عنها زوجها تخرج بالنهار لحاجتها ولا تبيت في غير منزلها، فهذا صريح في الفرق بينهما، نعم عبارة المتون يوهم ظاهرها ما قاله في البحر، فلو قيدوا خروجها بالحاجة كما فعل في الكافي لكان أظهر."

(کتاب الطلاق، باب العدۃ، ج نمبر ۳، ص نمبر ۵۳۶، ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101956

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں