بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عدت کے دوران علاج کے لیے گھر سے نکلنا اور عدت کا جاری رہنا


سوال

ہمارے والد صاحب کا 6 دسمبر کو انتقال ہوا، اس کے بعد ہماری والدہ عدت میں بیٹھی ہے، لیکن اس دوران 17 جنوری کو دل کا عارضہ لاحق ہوا ،جس کے بعد ان کو ہسپتال لے جایا گیا لیکن اس کے بعد بھی کافی طبیعت نا ساز ہے اور بار بار ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت پڑتی ہے کیااس سے ہماری والدہ کی عدت پر کوئی اثر پڑا ہے یا نہیں ؟ اب عدت جاری رہے گی یا از سر نو دوبارہ عدت میں بیٹھیں گی یا کیا عدت کی معافی کی کوئی صورت ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں سائل کی والدہ عدت جاری ہے از سر نوع دوبارہ عدت شروع کرنے کی ضرورت نہیں ہے، والد کا  انتقال  چونکہ 6 دسمبر بمطابق 1 جمادی الاولی کو ہوا ہے تو اس کے بعد جب چار اسلامی مہینے(جمادی الاولی، جمادی الاخری، رجب اور شعبان)   اور رمضان کے   دس دن کا وقت مکمل ہوجائے تو عدت ختم شمار ہوگی۔ سائل کی والدہ چونکہ عذر کی وجہ سے عدت کے دوران گھر سے نکلی تھی تو عند اللہ گناہ گار بھی نہیں ہوں گی کیونکہ شدید مجبوری کی صورت میں عدت کے دوران  گھر سے نکلنے کی اجازت ہے اور آئندہ بھی عدت کے دوران جب ڈاکٹر کے پاس جانا ہو تو سائل کوشش کرے کے دن دن کے وقت میں داکٹر کے پاس والدہ کو لے جائے اور رات ہونے سے پہلے پہلے گھر واپس لے آئے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إذا وجبت العدة بالشهور في الطلاق والوفاة فإن اتفق ذلك في غرة الشهر اعتبرت الشهور بالأهلة، وإن نقص العدد عن ثلاثين يوما، وإن اتفق ذلك في خلاله فعند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وإحدى الروايتين عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - يعتبر في ذلك عدد الأيام تسعون يوما في الطلاق وفي الوفاة يعتبر مائة وثلاثون يوما كذا في المحيط۔"

(کتاب العدۃ ج نمبر ۱ ص نمبر ۵۲۷،دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"«ومعتدة موت تخرج في الجديدين وتبيت) أكثر الليل (في منزلها) لأن نفقتها عليها فتحتاج للخروج، حتى لو كان عندها كفايتها صارت كالمطلقة فلا يحل لها الخروج فتح. وجوز في القنية خروجها لإصلاح ما لا بد لها منه كزراعة ولا وكيل لها»

ووجه الدفع أن معتدة الموت لما كانت في العادة محتاجة إلى الخروج لأجل أن تكتسب للنفقة قالوا: إنها تخرج في النهار وبعض الليل، بخلاف المطلقة. وأما الخروج للضرورة فلا فرق فيه بينهما كما نصوا عليه فيما يأتي۔"

(کتاب الطلاق باب العدۃ ج نمبر ۳ ص نمبر ۵۳۶،ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100382

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں