بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عدت کے بعد شوہر کی قبر پر جانا اور وقت گزارنا


سوال

عورت کا عدت کی مدت مکمل کرنے کے بعد شوہر کی قبر پر جانا اور وہاں تلاوت کرنا اور کچھ وقت گزارنا کیسا ہے؟ اس کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟

جواب

اگر کوئی عورت عدت مکمل ہونے کے بعد اپنے شوہر کی قبر پر یا ویسے ہی قبرستان اس لیے جائے کہ اس کا غم تازہ ہو، اور وہاں جا کر بلند آواز سے رونا دھونا اور واویلا کرے جیسا کہ عورتوں کی عادت ہوتی ہے تو اس عورت کے لیے قبرستان زیارت کے لیے جانا اور وہاں تلاوت کرنا اور وقت گزارنا جائز نہیں ہے، خواہ اپنے شوہر، والدین یا کسی رشتہ دار کی ہی قبر کیوں نہ ہو۔ حدیث مبارک میں ایسی عورتوں پر لعنت آئی ہے۔

اور اگر بوڑھی عورت عبرت و نصیحت حاصل کرنے یا تذکرہ آخرت کے لیے قبرستان جائے تو اس شرط کے ساتھ اجازت ہے کہ بے پردگی نہ ہو اور وہاں بلند آواز سے رونا اور جزع فزع نہ کرے۔ لیکن عورتوں میں صبر کا مادہ کم ہوتا ہے، اس لیے بوڑھی عورتوں کا بھی قبرستان نہ جانا ہی بہتر ہے۔ اور اگر عورت جوان ہو تو  مذکورہ شرائط کے ساتھ جانا بھی مکروہ ہے۔

نیز ایصال ثواب کے لیے قبرستان جانا کوئی ضروری بھی نہیں، بلکہ کسی بھی جگہ سے ایصال ثواب کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ عورت گھر میں ہی قرآن کریم کی تلاوت وغیرہ کرکے اپنے مرحوم شوہر کو ایصال ثواب کرلے۔

واضح رہے کہ عورت کے لیے عدت کے دوران قبرستان جانے کی کسی بھی صورت میں اجازت نہیں ہے۔

صحيح ابن حبان (ج:7، ص:452، ط: مؤسسة الرسالة - بيروت):

’’عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: لعن الله زائرات القبور.‘‘

ترجمہ: "حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: اللہ لعنت فرمائے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر۔"

البحر الرائق شرح كنز الدقائق (ج:2، ص:210، ط: دار الكتاب الإسلامي):

’’و لم يتكلم المصنف - رحمه الله - على زيارة القبور، و لا بأس ببيانه تكميلا للفائدة، قال في البدائع: و لا بأس بزيارة القبور و الدعاء للأموات إن كانوا مؤمنين من غير وطء القبور؛ لقوله صلى الله عليه و سلم: «إني كنت نهيتكم عن زيارة القبور، ألا فزوروها» و لعمل الأمة من لدن رسول الله صلى الله عليه و سلم إلى يومنا هذا اهـ. و صرح في المجتبى بأنها مندوبة و قيل: تحرم على النساء و الأصح أن الرخصة ثابتة لهما، «و كان صلى الله عليه وسلم يعلم السلام على الموتى: السلام عليكم أيها الدار من المؤمنين و المسلمين و إنا - إن شاء الله - بكم لاحقون أنتم لنا فرط و نحن لكم تبع فنسأل الله العافية» ، و لا بأس بقراءة القرآن عند القبور و ربما تكون أفضل من غيره و يجوز أن يخفف الله عن أهل القبور شيئا من عذاب القبر أو يقطعه عند دعاء القارئ و تلاوته، و فيه ورد آثار: «من دخل المقابر فقرأ سورة يس خفف الله عنهم يومئذ و كان له بعدد من فيها حسنات». اهـ و في فتح القدير: و يكره عند القبر كلما لم يعهد من السنة و المعهود منها ليس إلا زيارتها و الدعاء عندها قائما كما كان يفعل صلى الله عليه وسلم في الخروج إلى البقيع اهـ.‘‘

و في منحة الخالق:

’’(قوله: و قيل تحرم على النساء إلخ) قال الرملي: أما النساء إذا أردن زيارة القبور إن كان ذلك لتجديد الحزن و البكاء و الندب على ما جرت به عادتهن فلا تجوز لهن الزيارة، و عليه حمل الحديث «لعن الله زائرات القبور» ، و إن كان للاعتبار و الترحم و التبرك بزيارة قبور الصالحين فلا بأس إذا كن عجائز و يكره إذا كن شواب كحضور الجماعة في المساجد.‘‘

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144202200102

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں