بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عدت کے دوران رجوع نہ کرنے سے کیا مزید طلاق واقع ہوجاتی ہیں؟


سوال

اگر  شوہر بیگم کو  گھر نہ لے جائے تو  کیا خود سے طلاق واقع ہو جاتی ہے؟ 

سائل نے اس سے پہلے بھی اس سے متعلق سوال کیا تھا، جو جواب سمیت درج ذیل ہے: 

طلاق کے بعد شوہر رجوع کرنا چاہتا ہو، لیکن مطلقہ بیوی راضی نہ ہو تو شوہر کیسے رجوع کرے؟

فتوی نمبر 144201201297

کتاب:  حقوق و معاشرت،  باب:  نکاح  / طلاق،  فصل: رجوع

سوال: میں نے اپنی بیوی کو مؤرخہ 2ستمبر2020 کو ایک طلاق دی ہے اور اس کے بعد وہ اپنے والدین کے گھر چلی گئی ہے اور میں دوبارہ رجوع کرنا چاہتا ہوں، لیکن فی الحال وہ راضی نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں رہنمائی فرمائیں!

 جواب :صورتِ مسئولہ میں جب تک سائل کی  مطلقہ بیوی عدت میں ہے، سائل کو اس سے رجوع کا حق حاصل ہے، چاہے مطلقہ بیوی راضی ہو یا نہ ہو، بشرطیکہ سائل کے طلاقِ رجعی دی ہو، مسئولہ صورت میں رجوع کا طریقہ یہ  اختیار کرلیا جائے کہ سائل زبانی ان الفاظ کے ساتھ رجوع کرلے:"میں نے اپنی مطلقہ بیوی (اس کا نام) سے رجوع کرلیا ہے"، اور اپنے اس رجوع پر دو گواہ بنالے، اور مذکورہ خاتون کو مطلع بھی کردے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الرَّجْعَةُ إبْقَاءُ النِّكَاحِ عَلَى مَا كَانَ مَا دَامَتْ فِي الْعِدَّةِ كَذَا فِي التَّبْيِينِ وَهِيَ عَلَى ضَرْبَيْنِ: سُنِّيٌّ وَبِدْعِيٌّ (فَالسُّنِّيُّ) أَنْ يُرَاجِعَهَا بِالْقَوْلِ وَيُشْهِدَ عَلَى رَجْعَتِهَا شَاهِدَيْنِ وَيُعْلِمَهَا بِذَلِكَ فَإِذَا رَاجَعَهَا بِالْقَوْلِ نَحْوُ أَنْ يَقُولَ لَهَا: رَاجَعْتُك أَوْ رَاجَعْتُ امْرَأَتِي وَلَمْ يُشْهِدْ عَلَى ذَلِكَ أَوْ أَشْهَدَ وَلَمْ يُعْلِمْهَا بِذَلِكَ فَهُوَ بِدْعِيٌّ مُخَالِفٌ لِلسُّنَّةِ وَالرَّجْعَةُ صَحِيحَةٌ وَإِنْ رَاجَعَهَا بِالْفِعْلِ مِثْلُ أَنْ يَطَأَهَا أَوْ يُقَبِّلَهَا بِشَهْوَةٍ أَوْ يَنْظُرَ إلَى فَرْجِهَا بِشَهْوَةٍ فَإِنَّهُ يَصِيرُ مُرَاجِعًا عِنْدَنَا إلَّا أَنَّهُ يُكْرَهُ لَهُ ذَلِكَ وَيُسْتَحَبُّ أَنْ يُرَاجِعَهَا بَعْدَ ذَلِكَ بِالْإِشْهَادِ ،كَذَا فِي الْجَوْهَرَةِ النَّيِّرَةِ."

( الْبَابُ السَّادِسُ فِي الرَّجْعَةِ وَفِيمَا تَحِلُّ بِهِ الْمُطَلَّقَةُ وَمَا يَتَّصِلُ بِهِ، ١ / ٤٦٨، ط: دار الفكر)

الجوہرة  النیرة میں ہے:

قَالَ - رَحِمَهُ اللَّهُ - (وَإِذَا طَلَّقَ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ تَطْلِيقَةً رَجْعِيَّةً أَوْ تَطْلِيقَتَيْنِ فَلَهُ أَنْ يُرَاجِعَهَا فِي عِدَّتِهَا رَضِيَتْ بِذَلِكَ أَوْ لَمْ تَرْضَ) إنَّمَا شُرِطَ بَقَاؤُهَا فِي الْعِدَّةِ لِأَنَّهَا إذَا انْقَضَتْ زَالَ الْمِلْكُ وَحُقُوقُهُ فَلَا تَصِحُّ الرَّجْعَةُ بَعْدَ ذَلِكَ وَقَوْلُهُ رَضِيَتْ أَوْ لَمْ تَرْضَ؛ لِأَنَّهَا بَاقِيَةٌ عَلَى الزَّوْجِيَّةِ بِدَلِيلِ جَوَازِ الظِّهَارِ عَلَيْهَا وَالْإِيلَاءِ وَاللِّعَانِ وَالتَّوَارُثِ وَوُقُوعِ الطَّلَاقِ عَلَيْهَا مَا دَامَتْ مُعْتَدَّةً بِالْإِجْمَاعِ وَلِلزَّوْجِ إمْسَاكُ زَوْجَتِهِ رَضِيَتْ أَوْ لَمْ تَرْضَ وَقَدْ دَلَّ عَلَى ذَلِكَ قَوْله تَعَالَى {وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ} [البقرة: 228] سَمَّاهُ بَعْلًا وَهَذَا يَقْتَضِي بَقَاءَ الزَّوْجِيَّةِ بَيْنَهُمَا."

(كِتَابُ الرَّجْعَةِ، ٢ / ٥٠، ط: المطبعة الخيرية )

 فقط واللہ اعلم

جواب

واضح رہے کہ طلاق  واقع ہونے کے  لیے شوہر کی جانب  سے طلاق کی نسبت بیوی کی جانب  صراحتًا یا اشارةً   کرکے طلاق کے الفاظ کہنا ضروری ہوتا ہے، محض  میاں بیوی کے الگ الگ گھروں میں رہنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی، البتہ اگر شوہر نے اپنی بیوی کو طلاقِ رجعی دے رکھی ہو، اور  عدت کی تکمیل سے پہلے  پہلے تک اپنی مطلقہ منکوحہ  سے رجوع نہ کیا ہو تو عدت مکمل ہوتے ہی نکاح ختم ہوجاتا ہے،  اور  رجوع کا حق ساقط ہوجاتا ہے، تاہم نکاح ختم ہونے پر مزید طلاق خود بخود واقع نہیں ہوتی ، لہذا صورتِ مسئولہ میں  اگر شوہر نے عدت کے دوران رجوع  نہیں کیا تو عدت مکمل ہوتے ہی نکاح ختم ہوگیا، تاہم مزید کوئی طلاق واقع نہ ہوگی۔  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207200260

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں