بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عدت کے دوران عورت کا ملازمت پہ جانے کا حکم


سوال

میری ہمشیرہ کی عمر تقریباً 50 سال ہے اور وہ لاولد بھی ہے اور  ایک پرائیویٹ اسکول میں ملازمت کرتی  ہے، اس ملازمت کے علاوہ اس کا کوئی ذریعہ آمدن نہیں ہے، گزشتہ ہفتے اس کے میاں کا انتقال ہوگیا ہے۔ اس کے میاں نے ایک رہائشی مکان کے علاوہ کوئی جائیداد نہیں چھوڑی۔ اس کے میاں اکیلے تھے ، یعنی ان کے کوئی بھائی بہن نہیں ہیں اور ان کے سسر پہلے ہی وفات پاچکے ہیں ۔ اب ان کی عدت کے متعلق سوال یہ ہے کہ اگر وہ ملازمت چھوڑ کر عدت گھر میں رہ کر گزارتی ہیں تو ان کی ملازمت ختم ہوجائے گی جوکہ ان کے گزر بسر کا واحد ذریعہ ہے۔ اور دوبارہ ملازمت کا ملنا بہت مشکل ہے۔ تو کیا وہ عدت کے دوران ملازمت جاری رکھ سکتی ہیں؟ 

جواب

واضح رہے کہ عدت کے دوران عورت کو بغیر کسی شدید جانی ومالی نقصان کے اندیشے کے گھر سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے؛ لہذا اگر مذکورہ خاتون اپنی ملازمت سے رخصت لے کر عدت کے ایام گھر پر رہ کر گزارسکتی ہیں  تو عدت میں ملازمت کے لیے جانا جائز نہیں،اور اگر خرچ کا کوئی انتظام نہ ہو ،صرف ملازمت ہی کی صورت میں خرچ چل سکتاہو تو ایسی صورت میں دن کے وقت میں بقدر ضرورت ملازمت پہ جانے کی اجازت ہوگی اور رات سے پہلے  پہلے واپس اپنے گھر لوٹنا ضروری ہوگا۔

چنانچہ "البحرالرائق " میں ہے:

"(قوله: ومعتدة الموت تخرج يوماً وبعض الليل ) لتكتسب لأجل قيام المعيشة؛ لأنه لانفقة لها حتى لوكان عندها كفايتها صارت كالمطلقة فلايحل لها أن تخرج لزيارة ولا لغيرها ليلاً ولا نهاراً. والحاصل: أن مدار الحل كون خروجها بسبب قيام شغل المعيشة فيتقدر بقدره فمتى انقضت حاجتها لا يحل لها بعد ذلك صرف الزمان خارج بيتها، كذا في فتح القدير." (4/166 ، دار المعرفة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200919

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں