بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عدتِ وفات کے بعد بیوی کے نفقہ اور مشترکہ ترکہ کے احکام


سوال

میرےشوہر کا انتقال ہوگیا ہے،میری عدت30مئی کو ختم ہورہی ہے،میرےشوہرکا ایک گھر اور ایک فلیٹ ہے،گھر کے چار پورشن ہیں ،ایک پورشن میں بڑا بیٹا رہتا ہےاور تین پورشن کرایہ پر دیئے ہوئے ہیں،میں اور میرے شوہرفلیٹ میں اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ رہتے تھے،کرایہ آتا تھا ،اس سے ہم اپنےبیٹے کے ساتھ خرچہ شیئر کرتے ،فلیٹ کا تمام بل ادا کرتے،مکان اور فلیٹ کا جو بھی مینٹیننس ہوتاتھاہم اداکرتے تھے۔(میرے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے)

جب فلیٹ خریدا تھا،اس وقت میرے چھوٹے بیٹے نے تین لاکھ روپے ملائے تھے،میرے شوہر کہتے تھے کہ ہم تمہارے پیسے ادا کردیں گے۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ:

1۔عدت کے بعد میں اپنے بیٹے کے ساتھ خرچ کا کیا معاملہ کروں؟کیونکہ میرے خیال میں اب ان پیسوں پر میرے تینوں بچوں کا حق ہے۔

2۔میرےبچے مجھے کوئی خرچہ نہیں دیتے ،کیا اس کرایہ میں سے میں اپنا ذاتی خرچہ کرسکتی ہوں؟

3۔جب تک یہ مکان اور فلیٹ نہیں بکتااور وراثت تقسیم نہیں ہوجاتی،میں یہ پیسے جمع کرکے وراثت کی تقسیم کے وقت اپنے بچوں کو دوں یا پھر ابھی سے بانٹ دوں؟

4۔کیااپنے چھوٹےبیٹے کو تین لاکھ الگ سے اداکروں؟

5۔جب تک وراثت تقسیم نہ ہوتو مکان اورفلیٹ کا مینٹیننس اس کرایہ سے ادا کروں؟

6۔میرےبڑے بیٹے نے اپنے باپ کی قبرکے لیےبیس ہزار دیئے تھے،وہ میں کرایہ کے پیسوں سے ادا کروں؟وہ مجھ سے مانگ نہیں رہا۔

7۔کیا میں کرایہ کے پیسوں سے اپنے شوہر اور اپنی قربانی کرلوں؟

جواب

واضح رہے کہ کسی شخص کے انتقال کے بعد اس کے ترکہ میں اس کے تمام شرعی ورثاء  اپنے اپنے شرعی حصوں کے تناسب سے حق دار ہوتے ہیں ، کسی ایک وارث کے لیے    دوسرے وارث کے حصے کو اس کی رضامندی کے بغیر اپنے ذاتی استعمال میں لانا جائز نہیں ہے، لہٰذا  صورتِ مسئولہ میں مرحوم کی میراث تقسیم  کرکے ۔۔۔:

1۔سائلہ عدت ختم ہونے کے بعد  ترکہ سے ملنے والے اپنےحصے سے اپنا خرچہ چلاتی رہے،سائلہ کا حصہ کل ترکہ اور کرایہ میں سے ساڑھےبارہ فیصد ہے۔

2۔چونکہ میراث تمام ورثاء کا مشترکہ حق ہے،لہٰذا اگر تمام ورثاء بالغ ہوں اور وہ اجازت دے دیں توسائلہ فلیٹ سے حاصل ہونے والے کرایہ سے اپنا ذاتی خرچہ کرسکتی ہے۔

3۔دونوں صورتیں درست ہیں ،چاہے تو ابھی سے ان کے شرعی حصص کے مطابق بانٹ لیں یا جمع کرکے میراث کی تقسیم  ہونے کے وقت اس کو بھی ترکہ میں ملا کر تقسیم کریں،لیکن اگر ورثاء کی طرف سے تاخیرکی اجازت نہ ہو تو پھران کے حصہ کو روکنا سائلہ کے لیے جائز نہیں ہوگا۔

4۔مرحوم نےچونکہ چھوٹے بیٹے کی رقم  بطورِقرض لی تھی ،لہٰذامیراث کی تقسیم سے پہلے مرحوم کے کل ترکہ سے چھوٹے بیٹے کے تین لاکھ روپے اداکیے جائیں گے۔

5۔میراث کی تقسیم  ہونے تک مذکورہ مکان اور فلیٹ کا مینٹیننس اس سے حاصل ہونے والے کرایہ سے اد ا کیا جائے گا۔

6۔بڑےبیٹے نے مذکوہ رقم اگر بطورِ قرض دی تھی تو اس کا ترکہ سے ادا کرنا لازم ہے ورنہ  وہ بیٹے کی طرف سے تبرع(احسان) ہوگا۔

7۔اگر تمام ورثاء راضی ہوں توسائلہ کرایہ کے پیسوں سے اپنی اور  اپنے مرحوم شوہر کے ایصالِ ثواب کے لیے قربانی کرسکتی ہے۔

مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ مرحوم کے   حقوقِ متقدمہ یعنی  تجہیز و تکفین (کفن و دفن )کے اخراجات نکالنے کے بعد ،اگر ان کے ذمّے قرض ہو تو اس کو کل ترکہ سے ادا کرنے کے بعد ،اگر انہوں نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اس کو ترکہ کی ایک تہائی میں  نافذ کرنے  کے بعد باقی ترکہ منقولہ و غیر منقولہ کو40 حصوں میں تقسیم کرکے 5حصے مرحوم کی بیوہ کو،14حصےکرکے مرحوم کے ہر ایک بیٹے  کو اور 7 حصے مرحوم كی  بیٹی کو ملیں گے۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

بیوہبیٹابیٹابیٹی
17
514147

یعنی 100 روپے میں سے12.5روپے مرحوم کی بیوہ کو،35 روپے کرکے مرحوم کے ہر ایک بیٹے کو اور 17.5روپے مرحوم کی بیٹی کو ملیں گے۔

حدیث شریف میں ہے :

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "  ألا ‌لا ‌يحل ‌مال امرئ إلا بطيب نفس منه".

(مشکاۃ المصابیح،باب الغصب و العاریة،2/889،ط:المکتب الإسلامي)

ترجمہ:"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”کسی کا مال بغیر اس کی دلی رضامندی کے حلال نہیں۔"

بدائع الصنائع میں ہے:

"وشركة الأملاك نوعان . . . . . (وأما) الذي يثبت بغير فعلهما فالميراث بأن ورثا شيئا فيكون الموروث مشتركا بينهما شركة ملك".

(کتاب الشرکة،56/6،ط:دارالکتب العلمیة)

درر الحكام شرح مجلۃ الأحكام میں ہے  :

"( المادة 1073 )  تقسيم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابهم بنسبة حصصهم."

(القواعد الکلیۃ ،ج:3،ص: 22،ط:دار الکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310101299

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں