میں آپ سے طلاق کے متعلق معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ میں نے اپنی بیوی کے اصرار پر ان کو ایک طلاق اکتوبر 2008ء میں دی اور کہا کہ میں آپ کا انتظار کروں گا تین ماہ تک جو کہ طہر کے ہوتے ہیں اگر آپ آنا چاہیں تو آسکتی ہیں، لیکن وہ نہیں آئیں اور نہ ہی میں نے رجوع کیا تقریبا چار ماہ سے زیادہ عرصہ گذر گیا میری والدہ نے مجھ پر زور دیا کہ میں ان کو دستاویزات بھی ارسال کردوں کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ میں اپنی بیوی کوکہیں واپس نہ لے لوں۔میں نے ان سے کہاکہ امی اب تو تین طہر گذر چکے ہیں ان کو طلاق ہو چکی ہے لیکن آپ کو اگر اب بھی یقین نہیں ہے مجھ پر تو میں تین دفعہ کہہ دیتا ہوں ، اورلکھ کر بھی دے دونگا، میں نے امی کے سامنے تین دفعہ کہہ بھی دیا اور 4 اپریل 2009 ء کو لکھ کر بھی بھجوادیا ، اب تقریباڈیڑھ سال بعد میرا رابطہ ہواہے اپنی بیوی سے وہ اور میں دوبارہ شادی کرنا چاہتے ہیں اب میرا سوال یہ ہے کہ مجھے اس معاملہ میں شریعت کی روسے تبائیں کہ میری بیوی کو کون سی طلاق واقع ہوئی تھی اس کیس میں، آیا میں ان سے دوسرا نکاح کرسکتا ہوں فتویٰ دیا جائے۔
جب اکتو بر 2008 میں آپ نےا پنی بیوی کو ایک طلاق دی تو اس سے ایک طلاق رجعی واقع ہوئی، دوران عدت آپ کو رجوع کا اختیار تھا، لیکن جب عدت کے دوران آپ نے رجوع نہیں کیا تو اب عدت گذر چکنے کے بعد آپ کی بیوی کا آپ سے کوئی رابطہ نہیں رہا اس لیے عدت گذرجانے کے بعد نکاح ختم ہوچکاتھا اس لیے بعد میں دی گئی تین طلاقیں محل نہ ہو نے کی وجہ سےواقع نہیں ہوئیں۔ لہٰذا اب اگر آپ دونوں دوبارہ باہمی رضامندی سے نئے مہر کے ساتھ نکاح کرنا چاہتے ہیں تو کر سکتے ہیں ، آئندہ کے لیے آپ کے پاس دو طلاق کا اختیار رہے گا۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143101200481
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن