بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عدت گزارنے کی جگہ


سوال

تیسری طلاق کے بعد عورت عدت کہاں گزارے گی؟ اپنے والدین کے گھر یا اپنے شوہر کے گھر؟  مع دلائل مسئلے کی وضاحت فرما دیجیے۔

نوٹ: دلائل صرف قرآن وحدیث سے ہی دیے جائیں۔

جواب

عدت گزارنے والی عورت پر لازم ہے کہ جب تک شدید مجبوری نہ ہو، (مثلاً زبردستی نکال دیا جائے یا گھر منہدم ہونے کو ہو) اُس وقت تک اُسی گھر میں عدت گزارے جس گھر میں اپنے شوہر کے ساتھ رہا کرتی تھی، بغیر مجبوری کے اس گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے۔

باقی یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ صرف قرآن اور حدیث کو ہی احکامِ شرعیہ کا ماخذ سمجھنا، اس کے علاوہ اجماع اور قیاس کو احکام کا ماخذ نہ سمجھنا بڑی غلطی ہے؛ اس لیے کہ  جس طرح قرآن و حدیث سے احکام کا ثبوت مسلّم ہے، بالکل اسی طرح اجماع اور قیاس بھی ثبوتِ احکام کے لیے مستدل ہیں اور جُمہور نے اس کو تسلیم کیا ہے، چناں چہ روایت میں آتا ہے، حضرت معاذ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جب یمن کی طرف (قاضی بناکر) بھیجا تو پوچھا: (جب تمہارے سامنے کوئی مسئلہ آئے گا) کیسے فیصلہ کرو گے؟ عرض کیا: کتاب اللہ کے موافق۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: اگر کتاب اللہ میں نہ پاؤ؟ عرض کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے موافق۔ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پوچھا: اگر سنت رسول اللہ میں نہ ملے؟ عرض کیا: اپنی رائے و اجتہاد سے فیصلہ کروں گا۔ تو سرورکونین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے رسول اللہ  کے رسول و سفیر کو ایسی چیز کی توفیق عنایت فرمائی جس کو اللہ کا رسول  پسند کرتا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ رسالت مآب  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو غیر منصوص مسائل میں اجتہاد کی اجازت عطا کی تھی،  لہذا ہر مسئلہ میں صرف قرآن و حدیث سے دلیل طلب کرنا اور باقی مآخذِ شرعیہ کو مستدل نہ سمجھنا درست نہیں۔

تفسیر قرطبی میں ہے:

"أسكنوهن من حيث سكنتم.

اختلف العلماء في المطلقة ثلاثا على ثلاثة أقوال فمذهب مالك والشافعي: أن لها السكنى ولا نفقة لها. ومذهب أبي حنيفة وأصحابه: أن لها السكنى والنفقة."

(سورۃ الطلاق، جلد:18، صفحہ:166، طبع: دار الکتب المصریۃ)

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"باب السكنى للمطلقة.

قال الله تعالى: {‌أسكنوهن من حيث سكنتم من وجدكم} الآية. قال أبو بكر: اتفق الجميع من فقهاء الأمصار وأهل العراق ومالك والشافعي على وجوب السكنى للمبتوتة."

(الطلاق، جلد:3، صفحہ:613، طبع: دار الکتب العلمیۃ)

سنن الترمذی میں ہے:

"أن الفريعة بنت مالك بن سنان وهي أخت أبي سعيد الخدري، أخبرتها أنها جاءت رسول الله صلى الله عليه وسلم تسأله أن ترجع إلى أهلها في بني خدرة، وأن زوجها خرج في طلب أعبد له أبقوا، حتى إذا كان بطرف القدوم لحقهم فقتلوه، قالت: فسألت رسول الله صلى الله عليه وسلم أن أرجع إلى أهلي، فإن زوجي لم يترك لي مسكنا يملكه ولا نفقة، قالت: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «نعم»، قالت: فانصرفت، حتى إذا كنت في الحجرة، أو في المسجد، ناداني رسول الله صلى الله عليه وسلم، أو أمر بي فنوديت له، فقال: «كيف قلت؟»، قالت: فرددت عليه القصة التي ذكرت له من شأن زوجي، قال: «‌امكثي ‌في ‌بيتك حتى يبلغ الكتاب أجله»، قالت: فاعتددت فيه أربعة أشهر وعشرا، قالت: فلما كان عثمان أرسل إلي، فسألني عن ذلك، فأخبرته، فاتبعه وقضى به حدثنا محمد بن بشار قال: حدثنا يحيى بن سعيد قال: حدثنا سعد بن إسحاق بن كعب بن عجرة فذكر نحوه بمعناه.: «هذا حديث حسن صحيح»، " والعمل على هذا الحديث عند أكثر أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم: لم يروا للمعتدة أن تنتقل من بيت زوجها حتى تنقضي عدتها، وهو قول سفيان الثوري، والشافعي، وأحمد، وإسحاق «،» وقال بعض أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم: للمرأة أن تعتد حيث شاءت، وإن لم تعتد في بيت زوجها ".: «والقول الأول أصح."

(ابواب الطلاق، باب ما جاء این تعتد المتوفی عنھا زوجھا، جلد: 3، صفحہ: 500، طبع: مصطفى البابي الحلبي)

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"عن معاذ، أن النبي صلى الله عليه وسلم لما بعثه، قال: «كيف تقضي؟»، قال: أقضي بكتاب الله، قال: «فإن لم يكن كتاب؟» قال: أقضي بسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «فإن لم تكن سنة من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟»، قال: ‌أجتهد ‌برأيي، قال: فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «الحمد لله الذي وفق رسول رسول الله."

(كتاب أقضية رسول الله صلى الله عليه وسلم، جلد:6، صفحہ: 13، طبع: دار التاج - لبنان)

تبيين الحقائق ميں هے:

"وتعتدان ‌في ‌بيت ‌وجبت ‌فيه إلا أن تخرج أو ينهدم) أي تعتد المتوفى عنها زوجها إن أمكنها أن تعتد في البيت الذي وجبت فيه العدة بأن كان نصيبها من دار الميت يكفيها أو أذنوا لها في السكنى فيه، وهم كبار أو تركوها أن تسكن فيه بأجر وهي تقدر على ذلك لأنه - عليه الصلاة والسلام - «قال لفريعة بنت مالك حين قتل زوجها، ولم يدع مالا ترثه، وطلبت أن تتحول إلى أهلها لأجل الرفق عندهم امكثي في بيتك الذي أتاك فيه نعي زوجك حتى يبلغ الكتاب أجله» رواه الترمذي، وصححه."

(كتاب الطلاق، باب العدة، فصل في الاحداد، جلد:3، صفحه: 37، طبع: المطبعة الكبرى الأميرية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (‌في ‌بيت ‌وجبت ‌فيه)."

(کتاب الطلاق، جلد:3، صفحہ: 536، طبع: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101938

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں