بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عدتِ وفات کا حکم


سوال

میرے والد  کا انتقال 26 رمضان 2023 کو ہوا ہےتو  اس  حساب  سے  میری  والدہ  کی  مدت  عدت  کتنی  بنتی  هے؟

جواب

اگر کسی عورت کے شوہر کااسلامی مہینے کی پہلی تاریخ کوانتقال ہوجائےتواس کی عدت (اسلامی مہینوں کے اعتبارسے) چارماہ دس دن ہے(خواہ مہینہ 30 دن کاہو یا29دن کاہو) اور اگر شوہر کاانتقال اسلامی مہینے کے درمیان میں ہوجائے (یعنی مہینے کی پہلی تاریخ کو نہ ہو) تو  پھرعدت 130دن ہے، یہ حکم اُس صورت میں ہے جب عورت حمل سے نہ ہو،  اگر حمل سے ہو تو اس کی عدت وضعِ حمل (یعنی بچے کی ولادت) ہے اور یہ عدت شوہر کے انتقال ہوتے ہی شروع ہو جاتی ہے؛ لہٰذا صورتِ مسئولہ  ميں آپ  کے والدکا انتقال17 اپریل 2023 بمطابق  26 رمضان کو ہوا  تو  اس اعتبار  سے  130 دن آپ كي والدہ  كي عدت هوگي اور  یہ عدت  130 دنوں کے حساب سے 24 اگست 2023کو پوری ہوگی۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"عدة الحرة في الوفاة أربعة أشهر و عشرة أيام سواء كانت مدخولًا بها أو لا ... حاضت في هذه المدة أو لم تحض و لم يظهر حبلها، كذا في فتح القدير. هذه العدة لاتجب إلا في نكاح صحيح، كذا في السراج الوهاج. المعتبر عشر ليال و عشرة أيام عند الجمهور، كذا في معراج الدراية."

(كتاب الطلاق ، الباب الثالث عشر في العدة جلد 1 ص: 529 ط: دارالفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"إذا اتفق عدة الطلاق والموت في غرة الشهر اعتبرت الشهور بالأهلية وإن نقصت عن العدد، وإن اتفق في وسط الشهر. فعند الإمام يعتبر بالأيام فتعتد في الطلاق بتسعين يوما، وفي الوفاة بمائة وثلاثين."

(كتاب الطلاق ، باب العدة جلد 3 ص: 509 ط: دارالفكر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144501102575

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں