بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عدت مکمل ہونے کے بعد مطلقہ خاتون کا خرچہ بیٹوں کے ذمہ لازم ہے یا بھائیوں کے؟


سوال

مطلقہ عورت جس کی عدت گزر چکی ،اس کے صرف 2 بھائی اور 2 بیٹے ہیں، اور یہ سب کمانے پر قادر ہیں،اور وہ عورت خود کمانے پر قادر ہے،تو اس کا نفقہ کس کے ذمے ہے؟بیٹوں کے یا بھائیوں کے یا خود اسی عورت کے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگرمطلقہ   عورت کے پاس شریعت کی حدود کے اندر کمائی کا کوئی جائز  ذریعہ ہو تو  وہ اپنا خرچ خود اٹھائے ،  اگر نان ونقفہ کاکوئی انتظام نہ ہو،تو اس کا خرچہ شرعاً اس کے دو بالغ بیٹوں پر برابر سرابر عائد ہوگا، اور اگر اُن میں سے کوئی ایک غریب ہو،تو پھر پوراخرچہ دوسرے بیٹے پرلازم ہے،اور اگر دونوں بیٹے غریب ہوں،تو پھر مذکورہ عورت کا خرچہ اس کے دونوں بھائیوں پر لازم ہوگا۔

قرآن مجید میں ہے:

" وَقَرْنَ فِى بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ ٱلْجٰهِلِيَّةِ ٱلْأُولَىٰ  ."(سورة الاحزاب :33)

ترجمہ:"اور قرار پکڑو اپنے گھروں میں اور دکھلاتی نہ پھرو جیسا کہ دکھانا دستور تھا پہلے جہالت کے وقت میں۔"(بیان القرآن)

روح المعانی ميں ہے :

"والمراد علي جمع القراءات أمرهن رضي اللہ تعالي عنھن بملازمة البیوت وهو أمر مطلوب من سائر النساء، وأخرج الترمذي والبزار عن ابن مسعود رضي اللہ تعالي عنه عن النبي صلي اللہ علیه وسلم قال : إن المرأۃ عورۃ فإذا خرجت من بیتها استشرفها الشیطان و أقرب ما تکون من رحمة ربّھا و هي في قعر بیتها ."

(ج:11، ص: 253، ط: دارالإحياء التراث العربي)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"والأم إذا كانت فقيرة فإنه يلزم الإبن نفقتها، وإن كان معسرا، أو هي غير زمنة، وإذا كان الأبن يقدر على نفقة أحد أبويه، ولا يقدر عليهما جميعا فالأم أحق."

(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، ج:1، ص:565، ط:رشيدية)

تبیین الحقائق میں ہے:

"قال - رحمه الله - (‌ولا ‌يشارك ‌الأب ‌والولد ‌في ‌نفقة ‌ولده ‌وأبويه ‌أحد) أما الأبوان فإن لهما تأويلا في مال الولد لقوله - صلى الله عليه وسلم - «أنت ومالك لأبيك»، ولا تأويل لهما في مال غيره، ولأنه أقرب الناس إليهما فصار أولى بإيجاب النفقة."

(كتاب الطلاق، باب النفقة، ج:3، ص:64 ط:المطبعة الكبرى الأميرية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله والمعتبر فيه القرب والجزئية لا الإرث) أي الأصل في نفقة الوالدين والمولودين القرب بعد الجزئية دون الميراث كذا في الفتح: أي تعتبر أولا الجزئية: أي جهة الولاد أصولا أو فروعا، وتقدم على غيرها من الرحم، ثم يقدم فيها الأقرب فالأقرب، ولا ينظر إلى الإرث."

(كتاب الطلاق، باب النفقة، ج:3، ص:623، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507101697

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں