بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عدت میں نکاح کا حکم


سوال

ازدواجی زندگی میں ناچاقی کی وجہ سے   میری  کل طلاق ہوچکی ہے،میرا کوئی کفالت کرنے  والا نہیں، ایسے  حالات میں  مجھے خود کمانے کے لیے باہر نکلنا پڑے گا جو کہ میں نہیں کرنا چاہتی ؛کیوں  عام طورپر عورت  کے کمانے کے  حوالے سے ماحول  بہت خراب ہے، اہم  مسئلہ یہ ہے کہ ڈاکٹر نے  مجھے کہاہے کہ  میرے پاس تین مہینے ہیں  اس مدت میں حمل ٹھہر گیا تو صحیح  ورنہ  اس کے بعد بچے نہیں ہوں گے،ایسے حالات میں نکاح کرنا میرے لیے زیادہ مناسب اور بہتر راستہ ہے، ہمارے ایک دور  کا عزیز ہے جو ان سارے حالات سے واقف ہے ،وہ بطور ِ ہمدردی مجھ سے  نکاح کرناچا ہتاہے،آپ سے سوال یہ ہے کہ کیا کوئی ایساراستہ ہے جس سے میں ارجنٹ طورپر عدت  گزارے بغیر  نکاح کرلوں تاکہ میراحمل بھی ٹھہرے اور کفالت کا مسئلہ بھی حل ہوجائے۔

جواب

شریعتِ  مطہر ہ نے مطلقہ عورت پر دوسرے مرد سے    نکاح کرنے کے لیے   پہلے  شوہر کی عدت    گزارنے کو لازمی قرار دیاہے،عدت میں کیا ہوانکاح  شریعت میں  سرے سے منعقد ہی نہیں ہوتا  اور عدت میں نکاح کرنے  کے لیے جواز کا کوئی راستہ موجود نہیں، لہٰذا سائلہ کے لیے پہلے شوہر کی طلاق کےبعد دوسرے  شخص سے نکاح کرنے کے لیے عدت ( پوری تین ماہواریاں گزارنی) ضروری ہے، عدت کے بعد سائلہ  کا اس  شخص سے نکاح کرنا جائزہے اور پھر  اسی کے ذمہ سائلہ کی کفالت ہوگی،

اس کے ساتھ   یہ مسئلہ بھی  واضح رہے کہ جس طرح عدت کے دوران نکاح کرنا ناجائز اور باطل ہے ، اسی طرح  عدت کے دوران کسی  شخص کا معتدہ (عدت میں بیٹھی ہوئی عورت سے)  نکاح اور شادی کے متعلق گفتگو کرنا بھی شرعاً ناجائز ہے  ہاں صرف اشارۃً کنایتۃً نکاح کے متلعق بات کی جائے تو  اس کی گنجائش ہے،لہٰذا سائلہ اور اس شخص کو  عدت کے دوران نکاح کے متعلق صریح طورپر گفتگو کرنے سے    باز آجانا چاہیے۔

اور سائلہ  جب تک عدت  میں ہے  اس وقت تک اس کا نان نفقہ اور رہائش سابقہ شوہر  کے ذمہ شرعاً واجب ہے بشرط یہ ہے کہ وہ شوہر کے گھر  عدت گزارے یا اس کی اجازت  سے اپنے والدین کے گھر  عدت گزارے، اس کو چاہیے کہ عدت مکمل ہونے  تک سائلہ کو اپنے گھر میں رکھ کر اس کے نان ونفقہ کا انتظام کرتارہے ،عدت گزارنے کےبعد سائلہ  دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزادہوگی اور پھر پہلے شوہر سے نان ونفقہ اور رہائش کا بار ختم ہوجائے گا۔

قرآن کریم میں اللہ تبارک وتعالی کا ارشاد مبارک ہے:

"وَلَا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكَاحِ حَتَّىٰ يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي أَنفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ."(سورة البقرة: الآية 235)

ترجمہ: ’’اور پختہ نہ کرو عقدِ نکاح یہاں تک کہ (بیوہ کی) عدت اپنی مدت کو نہ پہنچ جائے، اور یقین جانو کہ بے شک اللہ تعالیٰ جانتے ہیں جو کچھ تمارے دلوں میں ہے، سو اسی سے ڈرو، اور یقین جانو کہ بے شک اللہ تعالیٰ بخشنے والے برد بار ہیں۔‘‘

قرآنِ کریم میں ہے:

 {أَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُّجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوْهُنَّ لِتُضَيِّقُوْا عَلَيْهِنَّ  وَ اِنْ کُنَّ اُولَاتِ حَمْلٍ فَاَنْفِقُوْا عَلَیْهِنَّ حَتّٰی یَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ... لِيُنْفِقْ ذُوْ سَعَةٍ مِّنْ سَعَتِه وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُه فَلْيُنْفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللهُ لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا سَيَجْعَلُ اللهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُّسْرًا} [الطلاق:6/7]

ترجمہ:’’ تم ان (مطلقہ) عورتوں کو اپنی وسعت کے موافق رہنے کا مکان دو جہاں تم رہتے ہو  اور ان کو تنگ کرنے کے لیے (اس کے بارے میں ) تکلیف مت پہنچاؤ اور اگر وہ (مطلقہ) عورتیں حمل والیاں ہوں تو حمل پیدا ہونے تک ان کو (کھانے پینے کا ) خرچ دو  ۔۔۔  (آگے بچہ کے نفقے کے بارے میں ارشاد ہے کہ ) وسعت والے کو اپنی وسعت کے موافق (بچہ پر) خرچ کرنا چاہیے اور جس کی آمدنی کم ہو اس کو چاہیے کہ اللہ نے جتنا اس کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرے، خدا تعالیٰ کسی شخص کو اس سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا جتنا اس کودیا ہے ۔ خدا تعالیٰ تنگی کے بعد جلدی فراغت بھی دے گا (گو بقدر ضرورت وحاجت روائی سہی) ۔
فائدہ:  یعنی عدت میں سکنی بھی مطلقہ کا واجب ہے ، البتہ طلاق بائن میں ایک مکان میں خلوت کے ساتھ دونوں کا رہنا جائز نہیں،  بلکہ حائل ہونا ضرور ہے۔‘‘

(ترجمہ و فائدہ از بیان القرآن)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"المعتدة عن الطلاق تستحق النفقة والسكنى كان الطلاق رجعيا أو بائنا، أو ثلاثا حاملا كانت المرأة، أو لم تكن كذا في فتاوى قاضي خان ... والمعتدة إذا كانت لا تلزم بيت العدة بل تسكن زمانا وتبرز زمانا لا تستحق النفقة كذا في الظهيرية . ولو طلقها، وهي ناشزة فلها أن تعود إلى بيت زوجها، وتأخذ النفقة ...  وكما تستحق المعتدة نفقة العدة تستحق الكسوة كذا في فتاوى قاضي خان ويعتبر في هذه النفقة ما يكفيها وهو الوسط من الكفاية وهي غير مقدرة؛ لأن هذه النفقة نظير نفقة النكاح فيعتبر فيها ما يعتبر في نفقة النكاح."

(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الثالث في نفقة المعتدة،  ج:1، ص:558، ط: دار الفكر)

فتاویٰ شامی  میں ہے:

"أما نكاح منكوحة الغير ومعتدته فالدخول فيه لا يوجب العدة إن علم أنها للغير لأنه لم يقل أحد بجوازه فلم ينعقد أصلا".

(کتاب النکاح، باب العدّۃ، مطلب عدة المنكوحة فاسدا و الموطوءة بشبهة، ج:3، ص:516، ط: ایچ ایم سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144506102594

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں