بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عدت کی مقدار/دورانِ عدت کے احکامات


سوال

1۔میرے والد کا انتقال 3 محرم الحرام کو ہوا تھا ،تو میری والدہ کو کب تک عدت کرنی چاہیے ؟

2۔اور کس طرح سے عدت کرنی چاہیے؟

3۔کس سے پردہ کرنا ہے ،اور کس سے  نہیں ؟

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں سائل کے والد کا انتقال 3 محرم الحرام  کو ہواہے،لہٰذا سائل کی والدہ  پر130 دن عدت ِ وفات  لازم ہے،130 دن عدتِ وفات کا شمار والدکی وفات کے  اگلے دن سے ہوگا،مثلاً اگر والد کا انتقال 3 محر م الحرام کو صبح دس بجے ہواہوتو4 محرم کو صبح دس بجے عدت کا ایک دن مکمل ہوجائے گا، اس طرح 130 دن عدت گزارے گی۔۔

2۔عدت کے دوران عورت  کی طرف کچھ مخصوص احکامات  متوجہ ہوتے ہیں،جوکہ درجِ ذیل ہیں:

 عدت کے دوران معتدہ عورت  کے لیے زیب و زینت اختیار کرنا، خوش بو  لگانا،سر میں تیل لگانا، سرمہ لگانا، مہندی لگانا،  بلاعذرِ شرعی گھر کی چار دیواری سے باہر نکلنا،سفر کرنا، خوشی غمی کے موقع پر گھر سے نکلنا، نکاح یا منگنی کرنا وغیرہ یہ سب امور ناجائز ہیں، ہاں  البتہ اگر سر  میں درد ہو یا  پھر سر میں جوئیں پڑگئی ہوں تو  ایسی صورت میں علاج کے طور پر سر میں تیل لگانے کی اجازت ہے،نیز دورانِ عدت گھر  میں کسی مخصوص کمرے میں بیٹھنا ضروری نہیں، معتدہ پورے گھر میں گھوم پھر سکتی ہے، اور گھر کی چار دیواری میں رہتے ہوئے کھلے آسمان تلے بھی جاسکتی ہے،اور بوقتِ ضرورت علاج معالجے کے لیے ڈاکٹر کے پاس بھی جاسکتی ہے، تاہم رات گھر پر ہی گزارے، گھریلو کام کاج بھی کرسکتی ہے۔

3۔عورت کے  جومحارم ہیں جیسے:اس کا والد،بھائی ،چچا،ماموں،سسروغیرہ ، ان سے عدت سے پہلے بھی پردہ نہیں اور عدت کے دوران بھی نہیں، اور جن لوگوں سے عدت سے پہلے پردہ ہے، ان سے عدت کے دوران بھی پردہ کرنالازم اور ضروری ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"في المحيط: ‌إذا ‌اتفق ‌عدة ‌الطلاق والموت في غرة الشهر اعتبرت الشهور بالأهلية وإن نقصت عن العدد، وإن اتفق في وسط الشهر. فعند الإمام يعتبر بالأيام فتعتد في الطلاق بتسعين يوما، وفي الوفاة بمائة وثلاثين."

(‌‌كتاب الطلاق، ‌‌باب العدة، ج:3، ص:509، ط:سعيد)

 فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"ابتداء العدة في الطلاق عقيب الطلاق، وفي الوفاة عقيب الوفاة، فإن لم تعلم بالطلاق أو الوفاة حتى مضت مدة العدة فقد انقضت عدتها، كذا في الهداية".

(ج:1، ص:532، ط: دارالفکر)

وفيه أيضاً:

‌"على ‌المبتوتة ‌والمتوفى ‌عنها ‌زوجها إذا كانت بالغة مسلمة الحداد في عدتها كذا في الكافي. والحداد الاجتناب عن الطيب والدهن والكحل والحناء والخضاب...وإنما يلزمها الاجتناب في حالة الاختيار أما في حالة الاضطرار فلا بأس بها إن اشتكت رأسها أو عينها فصبت عليها الدهن أو اكتحلت لأجل المعالجة فلا بأس به ولكن لا تقصد به الزينة كذا في المحيط."

(ج:1،ص: 533، ط:دارالفکر بیروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501101314

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں