بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عدت کے مکمل ہونے یا نہ ہونے میں بیوی کا قول معتبر ہے


سوال

میں نے اپنی بیوی کو چھ سالوں میں تین طلاقیں دے دیں ،اس کے بعد میری سابقہ بیوی نے دوسری جگہ شادی کر لی ،لیکن پھر اپنے دوسرے شوہر سے طلاق لے کر عدت کے بعد  مجھ سے نکاح اپنے گھر والوں کی رضامندی سے کیا ،اس کے بعد میری سسرال والوں سے لڑائی ہو گئی ،جس پر میں نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی ،چند ماہ بعد میرا  بیوی سے رابطہ ہوا ،میں اس سے ملنے گھر چلا گیا ،اپنی بائک پر میں نے اس کو چکر لگوایا ،اس دوران میں نے اپنی بیوی کو ہاتھ وغیرہ بھی لگایا اور مجھے اس وقت چاہت اور شہوت بھی تھی ،میری بیوی کہتی ہے کہ اس وقت میں عدت میں تھی ،لیکن مجھے اس وقت اس کا علم نہیں تھا ،پھر میں نے اپنے سسر سے رابطہ کیا اور کہا کہ میں دوبارہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں ،جس پر اس نے مجھ سے کہا کہ آپ نے اس سے عدت میں رجوع نہیں کیا ،اس لیے اب آپ کا کوئی حق نہیں ہے اور نہ میں اب آپ کے ساتھ رکھنے پر راضی ہوں ،میں اپنی بیوی سے فون پر رابطہ میں رہا اور بچوں کا خرچہ بھی دیتا رہا ،پھر میں نے فون پر  اس سے نکاح کر لیا اور اس وقت دو گواہ بھی آن لائن تھے،لیکن سسر راضی نہیں ہیں اور وہ اس کے ولی بھی ہیں کیا میں اپنی بیوی کے ساتھ ان کی اجازت کے بغیر رہ سکتا ہوں ۔

جواب

صورت مسئولہ میں   جب سائل نے اپنی بیوی کو شہوت کے ساتھ ہاتھ لگایا  تھا تو عدت کے دوران شہوت سے بیوی کو ہاتھ لگانے سے  رجوع ہو گیا  تھا ، دونوں کا نکاح برقرار رہا  اور اس کے بعد چونکہ سائل نے کوئی طلاق نہیں دی ہے  ؛ لہذا دونوں کا  نکاح اب بھی قائم ہے  اور  آئندہ کے لیے  سائل کو دو طلاقوں کا اختیار ہوگا ،جب نکاح برقرار ہے اور بیوی ساتھ رہنے پر آمادہ ہے تو سائل اس کے ساتھ رہ سکتا ہے ،سسر کا منع کرنا درست نہیں ہے ،باقی رجوع کے بعد دوبارہ نکاح کی ضرورت نہیں تھی ،لیکن سائل نے فون پر بیوی سے نکاح کر لیا تو واضح رہے کہ فون پر نکاح کرنے سے شرعا نکاح منعقد نہیں ہوتا ،نکاح کے لیے ایک ہی مجلس میں ایجاب و قبول ضروری ہے۔

الدر المختار میں ہے:

"(ادعاها بعد العدة فيها) بأن قال كنت راجعتك في عدتك (فصدقته صح) بالمصادقة (وإلا لا) يصح إجماعا"

(رد المحتار ،کتاب الطلاق ،باب الرجعۃ ،ج:3،ص:401،ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: ثم إنما تعتبر المدة) يعني أن في المسائل التي يقبل فيها قولها " انقضت عدتي ": لا بد من كون المدة تحتمل ذلك، ثم إنما يشترط احتمال المدة ذلك إذا كانت العدة بالحيض فلو كانت العدة بوضع الحمل ولو سقطا مستبين الخلق فلا تشترط مدة اهـح وسيأتي آخر الباب بيان المدة."

(کتاب الطلاق ،باب الرجعۃ ،ج:3،ص:401،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100037

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں