میں سرکاری ملازم ہوں ، گھر دفتر سے 40 سے 45 کلومیٹر دور ہے،گھر کے قریب سے ایپکا (سرکاری)بس شہر آتی ہے، جس میں مختلف سرکاری شعبوں کے ملازمین آتے ہیں، بس اور دفتر کے اوقات میں فرق ہے، میں بھی اس بس میں آتا جاتا ہوں، دفتر 8:30 پر لگتا ہے، جب کہ بس 9 بجے تک پہنچ جاتی ہے، واپسی میں بس 3 بجے جاتی ہے، جب کہ دفتری وقت 4 بجے ہے، مجھے دفتر کے امامِ مسجد نے بتا یا کہ آپ کا گھر دور ہے، آپ اگر دفتر کے سیکرٹری سے بات کرو،اگر وہ زبانی بھی آپ کو اجازت دے تو آپ کو شرعًا جواز مل جاتا ہے، سیکرٹری نے مجھے زبانی بتایا ہے کہ آپ بالکل جا سکتے ہیں۔ پوچھنا یہ ہے کہ کیا اس طرح سے وقت سے پہلے دفتر کے سیکرٹری سے اجازت لے کر گھر جانا جائز ہے؟ جب دفتر میں کام ہو تو میں 4 بجے یا پھر دیر تک بیٹھا رہتا ہوں۔ جب دفتر میں کام نہ ہو تو 3 بجے سرکاری بس میں گھرچلا جاتا ہوں ،کیا ایسا کرنامیرے لیے جائز ہے؟ مجھے سیکرٹری اور برانچ آفیسر دونوں نے اجازت دی ہے۔
واضح رہے کہ کسی بھی ادارے کے ملازمین کی حیثیت اجیرِ خاص کی ہوتی ہے، کیوں کہ وہ وقت کے پابند ہوتے ہیں، اور اجیرِ خاص ملازمت کےمقررہ وقت پر حاضر رہنے سے اجرت (تنخواہ) کا مستحق ہوتا ہے، اگر وہ ملازم ڈیوٹی کے اوقات میں حاضر نہیں رہتا تو وہ اس غیر حاضری کے بقدر تنخواہ کامستحق نہیں ہوگا۔
لہذاصورتِ مسئولہ میں سرکار کی طرف سے مذکورہ ملازم کی ڈیوٹی 8:30 سے شروع ہو کر 4:00بجے تک کی ہے،تومذکورہ ملازم کو ڈیوٹی کے پورے وقت میں حاضر رہنا ضروری ہے، اگرچہ کوئی کام نہ ہو،البتہ اگر سرکار کی طرف سےسیکرٹری اور برانچ آفیسرکو یہ اختیار حاصل ہو کہ وہ کام پورا ہونے پر ملازم کو چھٹی دے سکتے ہیں ،تو پھر اس میں کوئی مضائقہ نہیں،یعنی پھر آپ وقت سے پہلے چھٹی کر سکتے ہیں۔
فتح القدير میں ہے :
"أن الأجير الخاص هو الذي يستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة ، وإن لم يعلم كمن استؤجر شهرا للخدمة أو لرعي الغنم."
(كتاب الإجارۃ، باب إجارۃ العبد، ج: 9 ص: 140 ط: دار الفکر)
مجلۃ الأ حکام میں ہے:
"(المادة 425) : الأجير يستحق الأجرة إذا كان في مدة الإجارة حاضرا للعمل ولا يشرط عمله بالفعل ولكن ليس له أن يمتنع عن العمل وإذا امتنع لا يستحق الأجرة."
(الكتاب الثاني: في الإجارات، الباب الأول في بيان الضوابط العمومية، ص: 82 ط: نورمحمد)
فتاوی ہندیۃ میں ہے:
"ثم الأجرة تستحق بأحد معان ثلاثة إما بشرط التعجيل أو بالتعجيل أو باستيفاء المعقود عليه فإذا وجد أحد هذه الأشياء الثلاثة فإنه يملكها، كذا في شرح الطحاوي."
(کتاب الإجارۃ، الباب الثانی متی تجب الأجرۃ، ج: 4 ص: 423 ط: رشیدیة)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144411102323
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن