بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ادارہ کا حکومتی مقررہ تنخواہ سے کم تنخواہ پر ملازمین کے ساتھ معاہدہ کرنا اور ملازمین کو حکومتی کھاتے میں کم وقت کی خانہ پوری کرانے کا حکم


سوال

ایک ادارے میں حکومت کی متعین کردہ کم از کم اجرت سے کم تنخواہ پر ملازمت پر رکھنا کیسا ہے؟ اس کی وجہ ادارے کا پیسہ بچانا نہیں ،بلکہ آمدنی کا کم ہونا ہے، حکومت کے اداروں سے بچنے کے لیے اگر HR کے افراد کم آمدنی والے ملازم سے صرف 5 گھنٹوں کی ڈیوٹی لکھوا کر ملازمین سے دستخط کروالیں، جب کہ ملازمین کی ڈیوٹی آٹھ یا آٹھ گھنٹوں سے زیادہ ہو اور ملازمین کو سمجھا دیں کہ اگر حکومت یا ادارے میں سے کوئی سوال پوچھے تو وہ ملازم 5 گھنٹے ہی اپنی ڈیوٹی بتائیں۔

کیامذکورہ ادارے کا اپنے ملازمین کے ساتھ اس طرح کا فعل کرنا وقتی طور پر جائز ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں شرعی طورپر ملازم اسی تنخواہ کا حق دارہے، جو   ادارہ اور ملازم کے  درمیان طے ہوا ہے ، وہ کم ہے تو کم ، زیادہ ہے تو زیادہ،  تاہم ادارے کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ملازمین کی ضروریات کا لحاظ رکھتے ہوئے تنخواہ مقرر کرے، لیکن اگر ادارہ کی کم آمدنی کی وجہ سے حکومت کی مقرر کردہ مقدار سے کم تنخواہ دیتا ہے اور ملازمین کی ڈیوٹی آٹھ گھنٹے کی بجائے پانچ گھنٹے لکھتا ہے تو یہ جھوٹ اور دھوکہ دہی ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ کو مسلمان کی شان کے خلاف بتایا ہے، اور فرمایا کہ:"مومن ہر خصلت  پر ڈھل سکتا ہے سوائے خیانت اور جھوٹ کے" ، ایک دوسری روایت میں جھوٹ بولنے کو منافق کی علامت قرار دیا گیا ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک غلہ فروخت کرنے والے کے پاس سے گزرے، آپ نے اپنا ہاتھ غلہ کے اندر ڈالا تو ہاتھ میں کچھ تری محسوس ہوئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا یہ تری کیسی ہے؟ غلہ کے مالک نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس پر بارش ہو گئی تھی، آپ نے فرمایا تم نے اس بھیگے ہوئے غلہ کو اوپر کیوں نہ رکھا تاکہ لوگ اس کو دیکھ لیتے،جس شخص نے دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

مسند احمد میں ہے:

"حدثنا وكيع قال: سمعت الأعمش قال: حدثت عن أبي أمامة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يطبع المؤمن على الخلال كلها إلا الخيانة والكذب."

(‌‌تتمة مسند الأنصار، ‌‌حديث أبي أمامة الباهلي، رقم الحدیث:22170، ج:36، ص:504، ط:مؤسسة الرسالة)

مسلم شریف میں ہے:

"عن ‌أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على صبرة طعام فأدخل يده فيها، فنالت أصابعه بللا، فقال: ما هذا يا صاحب الطعام؟ قال: أصابته السماء، يا رسول الله. قال: أفلا جعلته فوق الطعام كي يراه الناس؟ ‌من ‌غش ‌فليس مني."

(كتاب الإيمان، ‌‌باب قول النبي صلى الله عليه تعالى وسلم: من غشنا فليس منا، رقم الحديث:102، ج:1، ص:69، ط:دار المنھاج)

"سنن الترمذي" میں ہے:

"عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على صبرة من طعام، فأدخل يده فيها، فنالت أصابعه بللا، فقال: يا صاحب الطعام، ما هذا؟، قال: أصابته السماء يا رسول الله، قال: «أفلا جعلته فوق الطعام حتى يراه الناس، ثم قال:من غش فليس مناوفي الباب عن ابن عمر، وأبي الحمراء، وابن عباس، وبريدة، وأبي بردة بن نيار، وحذيفة بن اليمان: حديث أبي هريرة حديث حسن صحيح والعمل على هذا عند أهل العلم ‌كرهوا ‌الغش، وقالوا: الغش حرام."

(‌‌أبواب البيوع، باب ما جاء في كراهية الغش في البيوع، رقم الحديث:1315، ج:3، ص:598، ط:مكتبة مصطفى البابي الحلبي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله وشرطها إلخ)۔۔۔(قوله كون الأجرة والمنفعة معلومتين) أما الأول فكقوله بكذا دراهم أو دنانير وينصرف إلى غالب نقد البلد، فلو الغلبة مختلفة فسدت الإجارة ما لم يبين نقدا منها فلو كانت كيليا أو وزنيا أو عدديا متقاربا فالشرط بيان القدر والصفة۔۔۔وأما الثاني فيأتي في المتن قريبا (قوله ساعة فساعة) ؛ لأن المنفعة عرض لا تبقى زمانين، فإذا كان حدوثه كذلك فيملك بدله كذلك قصدا للتعادل، لكن ليس له المطالبة إلا بمضي منفعة مقصودة كاليوم في الدار والأرض والمرحلة في الدابة كما سيأتي."

(کتاب الإجارۃ، شروط الإجارۃ، ج:6، ص:5، ط:سعید)

"فتح القدير للكمال ابن الهمام"میں ہے :

"أن ‌الأجير ‌الخاص هو الذي يستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة ، وإن لم يعلم كمن استؤجر شهرا للخدمة أو لرعي الغنم."

(كتاب الإجارۃ، باب إجارۃ العبد، ج:9، ص:140، ط:دار الفكر، لبنان)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(والثاني) وهو الأجير (الخاص) ويسمى أجير وحد (وهو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل كمن استؤجر شهرا للخدمة أو) شهرا (لرعي الغنم) المسمى بأجر مسمى بخلاف ما لو آجر المدة بأن استأجره للرعي شهرا حيث يكون مشتركا إلا إذا شرط أن لا يخدم غيره ولا يرعى لغيره فيكون خاصا وتحقيقه في الدرر وليس للخاص أن يعمل لغيره، ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل فتاوى النوازل."

"(قوله: وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلا يوما يعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا له أن يؤدي السنة أيضا..... (قوله ولو عمل نقص من أجرته إلخ) قال في التتارخانية: نجار استؤجر إلى الليل فعمل لآخر دواة بدرهم وهو يعلم فهو آثم، وإن لم يعلم فلا شيء عليه وينقص من أجر النجار بقدر ما عمل في الدواة."

(كتاب الإجارة،‌‌ باب ضمان الأجير، مبحث الأجير الخاص، ج:6، ص:69، ط:سعيد)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144411100435

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں