بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ابتدائی عمر میں ماں کو پرورش کا حق حاصل ہونے کی حکمتیں


سوال

میری بہو میرے بیٹے سے خلع لے کر چلی گئی تھی اور اب وہ کسی اور جگہ شادی کر رہی ہے۔خلع کے بعد بچے کی پرورش کے معاملہ میں ،میں نے دار الافتاء بنوری ٹاؤن سے رجوع کیا تو انہوں نے یہ فتوی دیا  کہ اگر بچے کی عمر سات سال سے کم ہو تو اس کی پرورش کا حق ماں کو ہوگا،لیکن اگر وہ بچے کے کسی نامحرم سے شادی کر ے گی تو  اس کا پرورش کا حق ساقط ہوجاے گا تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ شریعت نے پرورش کے معاملے میں بچے کو بہت اہمیت دی ہے۔

اب معلوم یہ کرنا چاہ رہا ہوں  کہ  کون سی وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر شریعت نے کم سن بچے  کی پرورش کے معاملہ میں  ماں کو فوقیت دی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ بچے کی سات سال کی عمر  تک اور بچی کی نو سال کی عمر تک پرورش کا حق شریعت مطہرہ نے  ماں کو دیا  ہے اور  اس کے بعد بچوں کی پرورش  کا حق دار  باپ ہوتا ہے۔

 اور ابتدائی عمر میں ماں کو  بچوں کی پرورش کا حق دینے میں  بہت ساری حکتیں ہیں،مثلاً:ماں میں  باپ کی بنسبت   اولاد کے لیے زیادہ شفقت و محبت ہوتی ہے اور قدرتی طور پر اولاد کا میلان بھی ماں کی طرف زیادہ ہوتا ہے،جس کی وجہ سے ماں اولاد کی ضروریات کا خیال زیادہ احسن انداز میں کرسکتی  ہے،خصوصا چھوٹی عمر میں جب  بچہ کچھ کرنے کے قابل ہی نہیں ہوتا ،مثلاًپیدائش کے بعد  بچہ کی بنیادی ضرورت دودھ کی ہوتی ہے  اور اس کے لیے ماں کادودھ سب سے زیادہ موزوں  اور مناسب ہوتا ہے،اسی طرح بچہ کو بار بار پیشاب پاخانہ وغیرہ کے لیےلیجانا/ بٹھانا ،پھر  اس کی صفائی ستھرائی کرنا ،کپڑے تبدیل کرانا،رات دن اس کے ساتھ رہنا وغیرہ ،اور پھر جب وہ کھانے پینےاور چلنے پھرنے کے قابل ہوجائے تو اس کو کھانے پینے ،استنجاء وغیرہ کے آداب  سکھلانا  اور بہترین تربیت کرنا،یہ  سب کام ماں ہی بہتر انداز میں کر سکتی ہے ؛کیونکہ  باپ  اکثر اوقات  کسب معاش  کے سلسلے میں  گھر سے باہر ہوتا ہے اور اولاد کو ماں کی طرح یکسوئی کے ساتھ وقت  نہیں دے   پاتا جس کی اولاد کو ضرورت ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ اولاد کا نفقہ اس دوران بھی باپ کے اوپر ہی لازم ہوتا ہے۔

اور  جب بچہ سات سال کا ہو جاتا ہے تو وہ یہ تمام چیزیں سیکھ چکا ہوتا ہے اور خود کرنے کے قابل ہو جاتا ہے  تو اب   اس  کے بعد  شریعت نے باپ کو بچے کے لینے کا حق دیا ہے ؛ کیوں کہ اب بچہ  کو مردوں کے اوصاف،اخلاق  اور اعمال سے متصف ہونا ہوتا ہے اور بچی  کو  عزت و عفت اور شادی کے لیے مناسب رشتہ کی ضرورت ہوتی ہے جس پر  باپ ہی زیادہ قادر ہوتا ہے۔

وفي بدائع الصنائع :

"وأما بيان من له الحضانة فالحضانة تكون للنساء في وقت وتكون للرجال في وقت والأصل فيها النساء؛ لأنهن أشفق وأرفق وأهدى إلى تربية الصغار ثم تصرف إلى الرجال؛ لأنهم على الحماية والصيانة وإقامة مصالح الصغار أقدر۔"

(کتاب الحضانہ،فصل فی بیان من لہالحضانۃ،4/ 41،ط:سعید)

وفي الهداية :

" وإذا وقعت الفرقة ين الزوجين فالأم أحق بالولد " لما روى أن امرأة قالت يا رسول الله إن ابني هذا كان بطني له وعاء وحجري له حواء وثديي له سقاء وزعم أبوه أنه ينزعه مني فقال عليه الصلاة والسلام: " أنت أحق به مالم تتزوجي " ولأن الأم أشفق وأقدر على الحضانة فكان الدفع إليها أنظر وإليه أشار الصديق رضي الله عنه بقوله ريقها خير له من شهد وعسل عندك يا عمر قاله حين وقعت الفرقة بينه وبين امرأته والصحابة حاضرون ‌متوافرون۔"

(كتاب الطلاق،باب من احقبہ،2/ 283،ط:دار احیاء التراث)

وفی فتح القدير :

"والأم والجدة أحق بالغلام حتى يأكل وحده ويشرب وحده ويلبس وحده ويستنجي وحده. وفي الجامع الصغير: حتى يستغنى فيأكل وحده ويشرب وحده ويلبس وحده) والمعنى واحد لأن تمام الاستغناء بالقدرة على الاستنجاء. ووجهه أنه إذا استغنى يحتاج إلى التأدب والتخلق بآداب الرجال وأخلاقهم، والأب أقدر على التأديب والتثقيف، والخصاف قدر الاستغناء بسبع سنين اعتبارا للغالب (والأم والجدة أحق بالجارية حتى تحيض) لأن بعد الاستغناء تحتاج إلى معرفة آداب النساء والمرأة على ذلك أقدر وبعد البلوغ تحتاج إلى التحصين والحفظ والأب فيه أقوى وأهدى۔"

(كتاب الطلاق،باب من احقبہ،4/ 371،ط:دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303101012

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں