بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ابراہیم علیہ السلام کا بیٹے کو قربان کرنے سے متعلق خواب دیکھنے سے قبل تیس دن قربانی کرنے کی من گھڑت بات کی تحقیق


سوال

(1) کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب دیکھنے کے بعد تیس دن تک اونٹ وغیرہ کی قربانی کرتے رہے تھے ؟ ایک مقرر کی زبانی یہ بات سنی کہ تیس دن قربانی کرنے کے بعد بیٹے کو ذبح کرتے ہوئے دیکھا خواب میں پھر بیٹے کو ذبح کرنے کے لئے لے کر چلے ٬ یہ کہاں تک صحیح ہے؟

(2) ایک تبلیغی مُقرر کا کہنا ہے کہ عبادت سے ایمان نہیں بڑھتا بلکہ اعمال کی حفاظت ہوتی ہے اور دعوت اور مجاہدہ سے ایمان بڑھتا ہے،کیا یہ بات درست ہے؟

(3) دعا و بیان کی ابتداء حمد وثنا کے بجائے درود شریف سے کرنا کیسا ہے؟

جواب

(1)قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مذکورہ خواب سے متعلق نازل کردہ آیات کی تشریح میں مفسرین علماء کی بیان کردہ تفاسیر کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تین دن مسلسل خواب آنے کے بعد تیسرے دن قربانی کرنا ثابت ہے،باقی تیس دن تک اونٹ کی قربانی کرنے کےبعد خواب آنے کا کہیں تذکرہ نہ ملا۔

قرآنِ کریم میں ہے:

"فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَىٰ فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانظُرْ مَاذَا تَرَىٰ ۚ قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ۖ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ (102)."

ترجمہ:’’سو جب وہ لڑکا ایسی عمر کو پہنچا کہ ابراہیم کے ساتھ چلنے لگا، تو ابراہیم نے فرمایا کہ برخوردار میں خواب دیکھتا ہوں کہ میں تم کو بارِ الہی ذبح کررہا ہوں سو تم بھی سوچ لو کہ تمہاری کیا رائے ہے۔وہ بولا کہ ابا جان آپ کو جو حکم ہوا ہےآپ (بلا تامل)کیجیے ، ان شاءاللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے دیکھیں گے۔‘‘

(از بیان القرآن،ج:3، ص:256، ط:رحمانیہ)

تفسیر امام رازیؒ میں ہے:

"وروي من طريق آخر أنه رأى ليلة التروية في منامه، كأن قائلا يقول له إن الله يأمرك بذبح ابنك هذا، فلما أصبح تروى في ذلك من الصباح إلى الرواح، أمن الله هذا الحلم أم من الشيطان؟ فمن ثم سمي يوم التروية، فلما أمسى رأى مثل ذلك، فعرف أنه من الله فسمي يوم عرفة، ثم رأى مثله في الليلة الثالثة فهم بنحره فسمي يوم النحر."

(سورة الصافات،ج:26، ص:346، ط:داراحياء التراث العربي)

(2) واضح رہے کہ اہلسنت والجماعت کے ہاں ایمان میں کیفیت کے اعتبار سے کمی زیادتی ہوتی ہے اورایمان قول و فعل دونوں سےبڑھتا ہے، یعنی جیسے دعوت دینے سے بڑھتا ہے ایسے ہی عبادت سے بھی بڑھتا ہے، لہذا یہ کہنا کہ ایمان عبادت(اعمال )سے نہیں بڑھتا ہے ،درست نہیں ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

"وَمَا جَعَلْنَا أَصْحَابَ النَّارِ إِلَّا مَلَائِكَةً ۙ وَمَا جَعَلْنَا عِدَّتَهُمْ إِلَّا فِتْنَةً لِّلَّذِينَ كَفَرُوا لِيَسْتَيْقِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَيَزْدَادَ الَّذِينَ آمَنُوا إِيمَانًا ۙ ."  (المدثر: 31)

ترجمہ: ’’اور ہم نے جہنم کا محافظ فرشتوں کے سوا کسی کو نہیں بنایا، اور ان کی تعداد اُن لوگوں کی آزمائش ہی کے لیے بنائی ہے جنہوں نے کفر کیا؛ تاکہ وہ لوگ جنہیں کتاب دی گئی ہے، اچھی طرح یقین کرلیں اور وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں ایمان میں زیادہ ہو جائیں۔‘‘

شرح النوویؒ میں ہے:

"قال عبد الرزاق سمعت من أدركت من شيوخنا وأصحابنا سفيان الثوري ومالك بن أنس وعبيد الله بن عمر والأوزاعي ومعمر بن راشد وبن جريح وسفيان بن عيينة يقولون الإيمان قول وعمل يزيد وينقص وهذا قول بن مسعود وحذيفة والنخعي والحسن البصري وعطاء وطاوس ومجاهد وعبد الله بن المبارك."

(كتاب الإيمان، باب بيان الإيمان والإسلام والإحسان ووجوب الإيمان ، ج:1، ص:146، ط:داراحىاء التراث العربي)

(3) دعا کا مسنون طریقہ جو کئی احادیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خود منقول ہے وہ یہ ہے کہ سب سے پہلے اللہ تبارک وتعالیٰ کی خوب حمد وثنا کی جائے، اس کے بعد آپ ﷺ پر درود شریف بھیجا جائے، پھر آپ ﷺ کے آل و اصحاب پر درود بھیج کر اپنی حاجت مانگی جائے، پھر دعا کے اختتام میں درود شریف اور پھر آخر میں حمد وثنا پر دعا ختم کی جائے، یہ دعا کا مسنون طریقہ ہے، اس کے مطابق دعا کے شروع اور آخر میں درود شریف بھی ہے، لیکن دعا میں سب سے پہلے  حمد وثناباری تعالیٰ ہے۔ البتہ اگر کوئی شخص دعا شروع ہی درود شریف سے کرے اور ختم بھی درود شریف پر ہی کرے تو یہ بھی جائز ہے، اگر حضور ﷺ کی محبت میں ایسا کرے گا تو یہ خلافِ ادب بھی نہیں کہلائے گا، لیکن احادیث میں آپ ﷺ سے دعا کا جو مسنون طریقہ مروی ہے، اس طریقہ کے خلاف ہونے کی وجہ سے غیراولی شمار ہوگا۔

سنن ترمذی میں ہے:

"عن ‌فضالة ‌بن ‌عبيد، قال: بينا رسول الله صلى الله عليه وسلم قاعد إذ دخل رجل فصلى فقال: اللهم اغفر لي وارحمني، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «عجلت أيها المصلي، إذا صليت فقعدت فاحمد الله بما هو أهله، وصل علي ثم ادعه». قال: ثم صلى رجل آخر بعد ذلك فحمد الله وصلى على النبي صلى الله عليه وسلم فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: «أيها المصلي ادع تجب». هذا حديث حسن."

(ابوب الدعاء، رقم الحديث:3476،ج:5، ص:516، ط:مكتبة مطبعة مصطفي البابي ، مصر)

الاذکار للنوویؒ میں ہے:

"أجمع العلماء على استحباب ابتداء ‌الدعا ‌بالحمد لله تعالى، والثناء عليه، ثم الصلاة على رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكذلك يختم الدعاء بهما؛ والآثار في هذا الباب كثير معروفة."

(كتاب الصلاةعلي رسول الله صلي الله عليه وسلم، ‌‌باب استفتاح الدعاء بالحمد لله تعالى والصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم،ص:225، ط:دارابن حزم)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"يبدأ ‌الدعاء ‌بالحمد لله والثناء عليه، لقوله صلى الله عليه وسلم: «إذا صلى أحدكم، فليبدأ بتحميد ربه، والثناء عليه، ثم يصلي على النبي صلى الله عليه وسلم، ثم يدعو بما شاء»  وأفضل تحري مجامع الحمد مثل: (الحمد لله حمدا يوافي نعمه، ويكافئ مزيده، ياربنا لك الحمد، كما ينبغي لجلال وجهك وعظيم سلطانك).ويختم دعاءه بالحمد لله، لقوله تعالى: {وآخر دعواهم أن الحمد لله رب العالمين}."

(‌‌المبحث الخامس ـ‌‌ الأذكار الواردة عقب الصلاة، ج:2، ص:995، ط:دارالفكر)

اوروعظ و  بیان کے خطبے میں بھی  یہی مذکورہ بالا حکم ہے۔

الموسوعۃ الفقہیۃ میں ہے:

"البداءة بحمد الله والثناء عليه، ثم الشهادتين ثم الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم، والعظة والتذكير."

(بحث الخطبة، ج:19، ص:184، ط:دارالسلاسل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101896

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں