بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ابن الذبیحین نام رکھنا


سوال

 کیا ابن الذبحين یا ابنِ ذبحين نام رکھ سکتے ہیں؟

جواب

"ابن الذبیحین " حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا لقب ہے؛ اس لیے کہ آپ دو ذبیحوں کے بیٹے ہیں، ایک  حضرت اسماعیل علیہ السلام اور   دوسرے آپ کے اپنے  والد عبداللہ  ۔

اب یہ لقب ایک طرح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت  ہے؛ اس لیے  اس لقب پر نام نہیں رکھنا چاہیے، بلکہ اس کے علاوہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام ہیں اُن ناموں میں سے کسی نام پر نام رکھ لینا چاہیے۔ اور "ابن الذبیحین" یا "ابنِ ذبیحین" نام رکھنے میں معنی بھی ملحوظ نہیں رکھا جاسکتا، بلکہ  کسی بچے کا نام ذبیح رکھنے میں  غیر ذبیح کے بیٹے کو ذبیح کا بیٹا کہا جارہاہے، جو خلافِ حقیقت  ہے؛ اس لیے بہرحال یہ نام نہ رکھا جائے۔

البيان والتعريف في أسباب ورود الحديث الشريف (1/ 293):

(781) أَنا ابْن الذبيحين.

أخرجه الْحَاكِم فِي الْمُسْتَدْرك عَن مُعَاوِيَة.

سَببه عَنهُ قَالَ كُنَّا عِنْد رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فَقَالَ رجل يَا رَسُول الله خلفت الْبِلَاد يابسة وَالْمَاء يَابسا هلك المَال وَضاع الْعِيَال فعد على مِمَّا أَفَاء الله عَلَيْك يَا ابْن الذبيحينفَتَبَسَّمَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَلم يُنكر عَلَيْهِ.

قيل لمعاوية وَمَا ابْن الذبيحين قَالَ: إِن عبد الْمطلب لما أَمر بِحَفر زَمْزَم نذر لله إِن سهل لَهُ أمرهَا أَن يذبح بعض وَلَده وأخرجهم وأسهم بَينهم فَخرج السهْم لعبد الله فَأَرَادَ ذبحه فَمَنعه أَخْوَاله من بني مَخْزُوم وَقَالُوا لَهُ أَرض رَبك وَافد ابْنكفَفَدَاهُ بِمِائَة نَاقَة فَهُوَ الذَّبِيح الثَّانِي وَإِسْمَاعِيل الأول.

وَرَوَاهُ ابْن مرْدَوَيْه والثعلبي فِي تفسيريهما وَعند الزَّمَخْشَرِيّ فِي الْكَشَّاف أَنا ابْن الذبيحين."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205200603

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں