بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ابن قیم نام رکھنا


سوال

’’ابن قیم‘‘ نام رکھنا کیسا ہے؟

جواب

عربی زبان میں لفظ ـ’’ـــ ابن‘‘ ولدیت کے لیے استعمال ہوتا ہے،’’قیم‘‘ کے معنی:ذمہ دار،اچھا منتظم ومدبراورنگراں کے آتے ہیں،اس اعتبار سے ’’ابن قیم‘‘ کا مطلب ہوا نگراں کا بیٹا،لہذا لغوی اعتبار سے ’’ابن قیم‘‘ نام رکھنا درست ہوگا، لیکن ’’ابن قیم‘‘ کے بجائے صرف ’’قیم ‘‘ نام رکھنا بہتر ہے،علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کو بھی ابن قیم اسی وجہ سے کہتے تھے کہ ان کے والد مدرسہ جوزیہ کے نگران تھے اور یہ ان کے صاحبزادے تھے تو مدرسہ کے ناظم کے بیٹے ہونے کی وجہ سے لوگ انہیں ابن قیم کہتے تھے،ورنہ ان کا اصل نام ’’محمد ‘‘اور والد کا نام’’ابوبکر‘‘تھا۔

لسان العرب میں ہے:

"والقيم: السيد و سائس الأمر، و قيم القوم: الذي يقومهم و يسوس أمرهم."

(فصل:القاف(مع المیم)،ج12،ص502،ط؛دار صادر)

البدایہ والنہایہ میں ہے:

"الشيخ الصالح العابد الناسك أبو بكر بن أيوب بن سعد الزرعي الحنبلي، قيم الجوزية، كان رجلا صالحا متعبدا قليل التكلف وكان فاضلا، وقد سمع شيئا من " دلائل النبوة " عن الرشيدي العامري، توفي فجأة ليلة الأحد تاسع عشر ذي الحجة بالمدرسة الجوزية، وصلي عليه بعد الظهر بالجامع، ودفن بباب الصغير، وكانت جنازته حافلة، وأثنى عليه الناس خيرا رحمه الله، و هو والد العلامة شمس الدين محمد بن قيم الجوزية صاحب المصنفات الكثيرة النافعة الكافية."

(ج18،ص235-236،ط:دار عالم الکتب)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144312100523

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں