میرے بھائی کا انتقال ہوا، اس کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں، جن میں بڑی بیٹی کی عمر 13 سال ، اس کے بعد ایک بیٹے کی عمر 12 سال ہے، پھر ایک بیٹی ہے جس کی عمر 8 سال ہے اور سب سے چھوٹے بیٹے کی عمر 6 سال ہے۔
میرے بھائی کے انتقال کے بعد بچوں کے نانا انہیں اپنے گھر لے گئے کہ ان کی تربیت کریں گے، چونکہ ان کے یہاں تربیت کا انتظام بالکل نہیں تھا، تو بچوں کے دادا (میرے والد صاحب) ان بچوں کو اپنے گھر لے آئے، جبکہ بھائی کی بیوہ (بچوں کی والدہ) بھی موجود ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ از روئے شرع اس صورتِ حال میں ان بچوں کی پرورش و تربیت کا حق کس کو ہوگا؛ کیونکہ اس حوالے سے دادا اور نانا کا جھگڑا ہورہا ہے۔
واضح رہے کہ بچے کی پرورش اور حضانت کا حق اصلاً ماں کو حاصل ہے؛ کیوں کہ بچے اپنے روزمرہ کی ضروریات کھانے، پینے اور استنجا وغیرہ میں مدد اور تعاون کے محتاج ہوتے ہیں، یہ امور والدہ یا دوسری کوئی خاتون ہی بخوبی بجا لاسکتی ہے، مرد کے لیے یہ امور سر انجام دینا آسان نہیں، اس لیے شرعًا لڑکے کو سات سال تک اور لڑکی کو نو سال کی عمر تک پرورش کی خاطر ماں یا دوسری قریبی رشتہ دار خاتون کے پاس رکھا جاتا ہے، بعد ازاں پرورش کی مدت مکمل ہوجانے پر باپ کو حق ہوتا ہے کہ وہ بچوں کو اپنے ساتھ رکھے، اور اس کے بعد مرحلہ وار تمام ذمّہ داریاں (مثلاً تعلیم و تربیت، شادی وغیرہ) باپ پر عائد ہوتی ہیں، اگر باپ نہ ہو تو بچوں کی پرورش و تربیت کا حق دادا کا ہوتا ہے۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں آپ کے مرحوم بھائی کے بچوں میں سے ایک بیٹی جس کی عمر 13 سال ہے اور ایک بیٹا جس کی عمر 12 سال ہے، اس کی تعلیم و تربیت کا حق شرعًا دادا کو حاصل ہے، دادا ان کو اپنی تربیت میں لے سکتا ہے، اس کے علاوہ باقی دونوں بچے مزید ایک سال تک اپنی ماں کےہاں پرورش پائیں گے، اگر ماں دوسری جگہ شادی کرلیتی ہے تو پرورش کا حق نانی کو ہوگا، پھر اگر ننھیال والے دلی خوشی سے اپنے ہاں پرورش پانے والے ان دونوں بچوں کے اخراجات اٹھانے پر راضی ہوں تو بہت اچھا، ورنہ اگر ان کے پاس مال ہو یا اپنے والد مرحوم کے ترکہ میں سے بطورِ حصّہ انہیں مال ملا ہو تو ان کے اخراجات اسی سے پورے کیے جائیں گے، البتہ اگر ان کے پاس کوئی مال نہ ہو تو ان کے اخراجات کا ایک تہائی بچوں کی والدہ اور بقیہ دو تہائی دادا کے ذمّہ ہوگا۔ پھر جب ان دونوں بچوں کی پرورش کی عمر بھی مکمل ہوجائے یعنی بچی نو سال کی اور بچہ سات سال کا ہوجائے تو ان کی تربیت کا حق بھی دادا کو ہوگا، دادا کے بعد چچاؤں کو تربیت کا حق ہوگا، اور ددھیال میں پرورش پانے والے بچوں کے اخراجات اگر ددھیال والے اپنی خوشی سے اٹھاتے ہیں تو بہت اچھا، ورنہ ان کے مال یا والد کے ترکہ میں ان کا جو حصّہ ہے اسی سے ان کے اخراجات پورے کیے جائیں گے، اگر ان کے پاس کوئی مال نہ ہو تو ان کے اخراجات کا ایک تہائی والدہ کے ذمّہ اور باقی دو تہائی دادا کے ذمّہ ہوگا۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما بيان من له الحضانة، فالحضانة تكون للنساء في وقت، وتكون للرجال في وقت، والأصل فيها النساء؛ لأنهنّ أشفق وأرفق وأهدى إلى تربية الصغار، ثم تصرف إلى الرجال؛ لأنهم على الحماية والصيانة وإقامة مصالح الصغار أقدر."
(كتاب الحضانة، فصل في بيان من له الحضانة، ج:4، ص:41، ط:ایج ایم سعید)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
"أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم إلا أن تكون مرتدة أو فاجرة غير مأمونة كذا في الكافي......وإن لم يكن له أم تستحق الحضانة بأن كانت غير أهل للحضانة أو متزوجة بغير محرم أو ماتت فأم الأم أولى من كل واحدة، وإن علت، فإن لم يكن للأم أم فأم الأب أولى ممن سواها، وإن علت كذا في فتح القدير.......
"والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني، وقدر بسبع سنين. وقال القدوري: حتى يأكل وحدَه، ويشرب وحدَه، ويستنجي وحدَه. وقدره أبو بكر الرازي بتسع سنين، والفتوى على الأول. والأم والجدة أحق بالجارية حتى تحيض. وفي نوادر هشام عن محمد رحمه الله تعالى: إذا بلغت حد الشهوة فالأب أحق، وهذا صحيح، هكذا في التبيين."
(كتاب الطلاق، الباب السادس عشر في الحضانة، ج:1، ص:542/541، ط:المكتبة الرشيدية كوئته)
وفيه أيضاً:
"وإذا وجب الانتزاع من النساء أو لم يكن للصبي امرأة من أهله يدفع إلى العصبة فيقدم الأب، ثم أبو الأب، وإن علا، ثم لأخ الأب وأم، ثم لأب، ثم ابن الأخ لأب وأم، ثم ابن الأخ لأب وكذا من سفل منهم، ثم العم لأب وأم، ثم لأب فأما أولاد الأعمام فإنه يدفع إليهم الغلام فيبدأ بابن العم لأب وأم، ثم بابن العم لأب والصغيرة لا تدفع إليهم ولو كان للصغير إخوة أو أعمام فأصلحهم أولى، فإن تساووا فأسنهم كذا في الكافي.
قال في تحفة الفقهاء، وإن لم يكن للجارية من عصباتها غير ابن العم فالاختيار إلى القاضي إن رآه أصلح يضمها إليه وإلا فيضعها عند أمينة كذا في غاية البيان."
(كتاب الطلاق، الباب السادس عشر في الحضانة، ج:1، ص:542، ط:المكتبة الرشيدية كوئته)
الفتاوی الخیریۃ میں ہے:
"سئل في صغيرة لها عم عصبة وأم تزوجت بالأجنبي وخال، فمن يلي إنكاحها وحضانتها؟ أجاب: العم هو الذي يلي الإنكاح، وأما الحضانة فحيث لم يوجد من يتقدم على العم مثل الجدة والأخت والخالة والعمة ونحوها فللعم أخذها."
(كتاب الطلاق، باب الحضانة،مطلب في صغيرة لها أم متزوجة بأجنبي وعم وخال، ج:1، ص:197، ط:المكتبة النعيمية باكستان)
وفيه أيضاً:
"سئل في الصبي إذا انقضت مدة حضانته، هل لعمه عصبته أن يأخذ من أمه أم لا؟ أجاب: نعم! يضمه العم، قال في "المنهاج" لجلال الدين أبي حفص عمر بن محمد بن عمر الأنصاري العقيلي من الحنفية: إن لم يكن للصبي أب وانقضت الحضانة فمن سواه من العصبة أولى الأقرب فاالأقرب."
(كتاب الطلاق، باب الحضانة، مطلب إذا لم يكن للصبي أب فلمن سواه من العصبة أن يضمه إليه، ج:1، ص:198، ط:المكتبة النعيمية باكستان)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
"وإن كان الأب قد مات وترك أموالا، وترك أولادا صغارا كانت نفقة الأولاد من أنصبائهم، وكذا كل ما يكون وارثا فنفقته في نصيبه...... ولو كان له أم وجد فإن نفقته عليهما أثلاثا على قدر مواريثهما، الثلث على الأم والثلثان على الجد، وكذلك إذا كان له أم وأخ لأب وأم، أو ابن أخ لأب وأم، أو عم لأب وأم، أو واحد من العصبة فإن النفقة عليهما أثلاثا على قدر مواريثهما."
(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الخامس، ج:1، ص:566/564، ط:المكتبة الرشيدية كوئته)
البحر الرائق میں ہے:
"وفي الخانية صغير مات أبوه وله أم وجد أب الأب كانت النفقة عليهما أثلاثا الثلث على الأم والثلثان على جد الأب اهـ. وبه علم أن الجد ليس كالأب فيها."
(كتاب الطلاق، باب النفقة، ج:4، ص:231، ط:دار الكتاب الإسلامي القاهرة)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144606102022
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن