بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

یمین لغو کا حکم


سوال

 مسئلہ یہ ہے کہ ایک شخص  نے  لڈو گیم میں قسم کھالی، قسم کھانے  کی صورت یہ بنی کہ اس شخص کو  یہ معلوم نہیں  تھا کہ   گوٹی  اپنی جگہ پر تھی اوراس نے قسم کھالی کہ یہاں پر گوٹی  نہیں تھی تو اس قسم کھانے میں  کیا ایمان جاتا ہے  یا نہیں ؟

جواب

لڈو کھیلنے میں جسمانی ورزش یا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہے، بلکہ اس میں عموماً انہماک اس درجہ کا ہوتا ہے  کہ نماز و دیگر امور میں غفلت ہوجاتی ہے، اور اس بے مقصد کھیل میں قیمتی وقت کا ضیاع ہوتا ہی ہے، نیز ایسے کھیلوں میں انہماک کی وجہ سے دل ودماغ اکثر اوقات ان ہی چیزوں کی طرف متوجہ رہتاہے اور خدا کی یاد سے غافل رہتاہے، لایعنی امور میں ایسا انہماک شرعاً ناپسندیدہ ہے، مسلمان کا دل ودماغ ہر وقت یادِ خدا  اور آخرت کی تیاری میں مشغول رہنا چاہیے، اور وقت کو با مقصد کاموں میں  لگانا چاہیے جن میں دینی و دنیوی یا کم از کم دنیوی فائدہ ہو، لہذا لڈو کھیلنے میں اگر جوا نہ بھی ہو تو ایسے بے مقصد اور لایعنی کھیلوں سے بہرصورت اجتناب کرناچاہیے۔ اور اگر جوا ہو تو اس کے ناجائز ہونے میں شبہ ہی نہیں۔

صورتِ مسئولہ میں  قسم کھانے کی جو صورت ذکرکی  گئی ہے کہ اس شخص  کے علم میں یہ تھا کہ گوٹی اپنی جگہ نہیں ہے اور اس بات پر اس نے قسم کھالی حالاں کہ  گوٹی اپنی جگہ  موجود تھی  تو قسم  کی یہ صورت  شرعاً "یمین لغو" ہے جس میں قسم کھانے والا اپنے علم کے مطابق قسم  کھاتاہے،یمینِ لغو کا حکم یہ ہے کہ اس میں  نہ کفارہ لازم آتاہے اور نہ اس سے کسی کا ایمان جاتاہے البتہ   چوں کہ قسم اٹھانا ایک  بہت بڑی ذمہ داری ہے اس وجہ سے   کھیل کھود اور لغو امور میں  ربِ لم یزل،شہنشاہِ مطلق، مالک ارض وسماء  کے مبارک نام کی قسم اٹھانا سراسر بے ادبی اور گستاخی ہے جس سے ہرکلمہ گو مسلمان کو   بصد درجہ   احتیاط  برتنی   چاہیے۔

 فتاویٰ شامی میں ہے:

"و) ثانيها (لغو) لا مؤاخذة فيها إلا في ثلاث طلاق وعتاق ونذر أشباه، فيقع الطلاق على غالب الظن إذا تبين خلافه، وقد اشتهر عن الشافعية خلافه (إن حلف كاذبا يظنه صادقا) في ماض أو حال فالفارق بين الغموس واللغو تعمد الكذب، وأما في المستقبل فالمنعقدة وخصه الشافعي بما جرى على اللسان بلا قصد، مثل لا والله وبلى والله ولو لآت

قوله وخصه الشافعي إلخ) اعلم أن تفسير اللغو بما ذكره المصنف هو المذكور في المتون والهداية وشروحها. ونقل الزيلعي أنه روي عن أبي حنيفة كقول الشافعي. وفي الاختيار أنه حكاه محمد عن أبي حنيفة، وكذا نقل في البدائع الأول عن أصحابنا. ثم قال: وما ذكر محمد على أثر حكايته عن أبي حنيفة أن اللغو ما يجري بين الناس من قولهم لا والله وبلى والله فذلك محمول عندنا على الماضي أو الحال، وعندنا ذلك لغو. فيرجع حاصل الخلاف بيننا وبين الشافعي في يمين لا يقصدها الحالف في المستقبل. فعندنا ليست بلغو وفيها الكفارة. وعنده هي لغو ولا كفارة فيها اهـ"

(کتاب الأیمان: ج:3، ص:706، ط:ایچ ایم سعید)

فقط  والله أعلم


فتوی نمبر : 144505101639

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں