بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

”علامات قیامت چھ ہیں: میرا فوت ہونا، بیت المقدس کا فتح ہونا، بکری کے سینے کی بیماری کی طرح موت کا لوگوں کو دبوچنا...“ مذکورہ روایت کی تخریج وتشریح


سوال

سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ”علامات قیامت چھ ہیں: میرا فوت ہونا، بیت المقدس کا فتح ہونا، بکری کے سینے کی بیماری کی طرح موت کا لوگوں کو دبوچنا، ہر مسلمان کے گھر کو متاثر کرنے والے فتنے کا ابھرنا، آدمی کا ہزار دینار کو خاطر میں نہ لانا (‏‏‏‏یعنی کم سمجھنا)،  اور روم کا غداری کرنا، وہ اسی جھنڈوں کے نیچے چلیں گے اور ہر جھنڈے کے نیچے بارہ ہزار افراد ہوں گے۔“(سلسلۂ احادیث صحیحہ : 3597 / ترقیم البانی)،  مندرجہ بالا حدیث کی تشریح کر دیں۔

جواب

علاماتِ قیامت جو احادیثِ مبارکہ میں ذکر ہوئی ہیں ان سے مقصد  قیامت کا قریب آناہے، اور مسلمان کے لیے  ایک یاد دہانی ہے کہ وہ غفلت کی نیند سے بیدار ہوکر اپنی آخرت کی تیاری میں مصروفِ عمل ہو، کیوں کہ  احادیث مبارکہ میں جو علامات  ذکر شدہ ہیں ان  کے ذریعے قیامت کا ٹھیک ٹھیک دن اور تاریخ معلوم نہیں ہوسکتی، بلکہ قربِ قیامت کی دلیل ہیں، اس لیے کہ اللہ تعالی نے فرما یا ہے: ”﴿‌لَا ‌تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً﴾ [الأعراف: 187] (یعنی قیامت تمہارے پاس اچانک ہی آئے گی) ، ایک  حدیث میں ہے  کہ لوگ اپنے اپنے کاروبار میں مشغول ہوں گے، ایک شخص نے گاہک کو دکھلانے کے لئے کپڑے کا تھان کھولا ہوا ہو گا وہ ابھی معاملہ طے نہ کر پائیں گے کہ قیامت قائم ہو جائے گی۔

 سائل نے جس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے، یہ روایت ”صحیح بخاری“ میں  مذکورہے اسی طرح کچھ الفاظ کے تبدیلی کے ساتھ ”مصنف ابن ابی شیبہ“، ”مسند احمد“ ، ”المعجم الکبیر“ ، ”الفر دوس بماثور الخطاب“ میں بھی ذکر ہے، ذیل میں ”صحیح بخاری“ اور ”مصنف ابن ابی شیبہ“ کے حوالے سے پوری روایت ذکر کی جاتی ہے۔

اور  مذکورہ روایت میں جتنی علاماتِ قیامت ذکر  ہیں  اکثر وقوع  پذیر ہیں، صرف ایک آخری علامت جو اس حدیث میں ذکر ہے(رومیوں کے ساتھ صلح اور ان کا غدر) وہ ابھی تک واقع  نہیں ہوئی ہےوہ   حضرت امام مہدی کے ظہور کے بعدواقع ہوگی۔   

بخاری شریف میں ہے: 

"حدثنا الحميدي حدثنا الوليد بن مسلم حدثنا عبد الله بن العلاء بن زبر قال: سمعت بسر بن عبيد الله: أنه سمع أبا إدريس قال: سمعت عوف بن مالك قال: "أتيت النبي صلى الله عليه وسلم في غزوة تبوك وهو في قبة من أدم، فقال: ‌اعْدُدْ ‌سِتًّا ‌بَيْنَ ‌يَدَيِ ‌السَّاعَةِ: مَوْتِي ثُمَّ فَتْحُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ ثُمَّ مُوتَانٌ يَأْخُذُ فِيكُمْ كَقُعَاصِ الْغَنَمِ ثُمَّ اسْتِفَاضَةُ الْمَالِ حَتَّى يُعْطَى الرَّجُلُ مِائَةَ دِينَارٍ فَيَظَلُّ سَاخِطًا ثُمَّ فِتْنَةٌ لَا يَبْقَى بَيْتٌ مِنَ الْعَرَبِ إِلَّا دَخَلَتْهُ ثُمَّ هُدْنَةٌ تَكُونُ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ بَنِي الْأَصْفَرِ فَيَغْدِرُونَ فَيَأْتُونَكُمْ تَحْتَ ثَمَانِينَ غَايَةً تَحْتَ كُلِّ غَايَةٍ اثْنَا عَشَرَ أَلْفًا."

(صحيح البخاري، كتاب الجزية، ‌‌باب ما يحذر من الغدر، (4/ 101)، ط: دار طوق النجاء)

ترجمہ: ”حضرت عوف ابن مالک کہتے ہیں کہ غزوہ تبوک کے دوران (ایک دن) میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت آپ چمڑے کے خیمے میں تشریف رکھتے تھے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: تم قیامت آنے سے پہلے چھ چیزوں کو شمار کرو (یعنی ان چھ چیزوں کو قیامت کی علامتوں سے جانو کہ قیامت آنے سے پہلے یہ چھ چیزیں ضرور واقع ہوں گی) ایک تو میری موت (کہ جب تک میں تمہارے درمیان موجود ہوں قیامت نہیں آئے گی)، دوسرے بیت المقدس کا فتح ہونا (یعنی جب تک بیت المقدس مسلمانوں کے ہاتھوں فتح نہیں ہو جائے گا قیامت نہیں آئے گی، تیسرے عام وباء جو تم میں بکریوں کی بیماری کی طرح پھیلے گی، چوتھے لوگوں کے پاس مال و دولت کا اس قدر زیادہ ہونا کہ اگر ایک آدمی کو سو دینار بھی دیے جائیں گے تو ان کو حقیر و کمتر جانے گا اور اس پر ناراض ہو گا، یعنی مال و دولت کی اس قدر ریل پیل ہوگی کہ کسی کی نظر میں بڑی سے بڑی رقم کو بھی کوئی اہمیت نہیں ہوگی، چنانچہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کی یہ پیش گوئی حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں پوری ہوئی جب کہ مسلمانوں میں مال و دولت کی زبر دست ریل پیل ہو گئی تھی، پانچویں فتنے اور آپس کی مخاصمت و مخالفت کا اس طرح پھوٹ پڑنا کہ عرب کا کوئی گھر باقی نہیں بچے گا جس میں اس فتنے کے برے اثرات نہ پہنچیں، (علماء نے لکھا ہے کہ اس پیش گوئی کا مصداق حضرت عثمان کا سانحہ شہادت ہے یا فتنہ سے مراد ہر وہ فتنہ اور برائی ہے جس کا ظہور حضور ﷺ کے بعد ہوا)، اور چھٹے صلح جو تمہارے اور رومیوں کے درمیان ہوگی، پھر رومی عہد شکنی کریں گے اور تمہارے مقابلے کے اسی نشانوں کے تحت آئیں گے جن میں سے ہر نشان کے ما تحت بارہ ہزار آدمی ہوں گے۔“

(مظاہرِ حق جدید، کتاب الفتن، 4/ 884، ط: دار الاشاعت، کراچی)

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے: 

"حدثنا وكيع عن النهاس بن (قهم) قال: حدثني شداد أبو عمار عن معاذ بن جبل قال: قال رسول اللَّه صلى الله عليه وسلم: "ست من أشراط الساعة: ‌موتي، ‌وفتح ‌بيت ‌المقدس، وأن يعطى الرجل ألف دينار فيسخطها، وفتنة يدخل (حربها) بيت كل مسلم، وموت يأخذ في الناس كقعاص المغنم، وأن (تغدر) الروم فيسيرون (باثني عشر) تحت كل (بندٍ) اثنا عشر ألفا."

(مصنف ابن أبي شيبة، كتاب الفتن، من كره الخروج في الفتنة وتعوَّذ منها، (21/ 291)، ط: دار كنوز إشبيليا - السعودية)

عمدۃ القاری میں ہے: 

"وهذه الست المذكورة ظهرت منها الخمس: موت النبي صلى الله عليه وسلم، وفتح بيت المقدس، والموتان كان في طاعون عمواس زمن عمر بن الخطاب، رضي الله تعالى عنه مات فيه سبعون ألفا في ثلاثة أيام، واستفاضة المال كانت في خلافة عثمان، رضي الله تعالى عنه، عند تلك الفتوح العظيمة والفتنة استمرت بعده، والسادسة لم تجيء بعد، وروى ابن دحية من حديث حذيفة مرفوعا: أن الله تعالى يرسل ملك الروم، وهو الخامس من أولاد هرقل، يقال له: صمارة، فيرغب إلى المهدي في الصلح، وذلك لظهور المسلمين على المشركين، فيصالحه إلى سبعة أعوام، فيضع {عليهم الجزية عن يد وهم صاغرون} (التوبة: 92). ولا يبقى لرومي حرمة، ويكسر لهم الصليب، ثم يرجع المسلمون إلى دمشق فإذا هم كذلك إذا رجل من الروم قد التفت فرأى أبناء الروم وبناتهم في القيود، فرفع الصليب ورفع صوته، وقال: ألا من كان يعبد الصليب فلينصره، فيقوم إليه رجل من المسلمين فيكسر الصليب، ويقول: الله أغلب وأعز، فحينئذ يغدرون وهم أولى بالغدر، فيجتمع عند ذلك ملوك الروم خفية فيأتون إلى بلاد المسلمين، وهم على غفلة مقيمين على الصلح، فيأتون إلى أنطاكية في اثني عشر ألف راية، تحت كل راية اثني عشر ألفا، فعند ذلك يبعث المهدي إلى أهل الشام والحجاز والكوفة والبصرة والعراق يستنصر بهم، فيبعث إليه أهل الشرق: أنه قد جاءنا عدو من أهل خراسان شغلنا عنك، فيأتي إليه بعض أهل الكوفة والبصرة، فيخرج بهم إلى دمشق وقد مكث الروم فيها أربعين يوما يفسدون ويقتلون، فينزل الله صبره على المسلمين، فيخرجون إليهم فيشتد الحرب بينهم ويستشهد من المسلمين خلق كثير، فيا لها من وقعة ومقتلة ما أعظمها وأعظم هولها، ويرتد من العرب يومئذ أربع قبائل: سليم وفهد وغسان وطي، فيلحقون بالروم، ثم إن الله ينزل الصبر والنصر والظفر على المؤمنين، ويغضب على الكافرين، فعصابة المسلمين يومئذ خير خلق الله تعالى والمخلصين من عباده، وليس فيهم مارد ولا مارق ولا شارد ولا مرتاب ولا منافق، ثم إن المسلمين يدخلون إلى بلاد الروم ويكبرون على المدائن والحصون،. فتقع أسوارها بقدرة الله تعالى، فيدخلون المدائن والحصون ويغنمون الأموال ويسبون النساء والأطفال، وتكون أيام المهدي أربعين سنة: عشر منها بالمغرب، واثني عشر سنة بالمدينة، واثني عشر سنة بالكوفة، وستة بمكة، وتكون منيته فجاءة."

(عمدة القاري، باب ما يحذر من الغدر، (15/ 100)، ط: دار إحياء التراث العربي)

فیض القدیر میں ہے: 

"(ست من أشراط الساعة) أي علاماتها المؤذنة بقيامها (موتي وفتح بيت المقدس وأن يعطى الرجل ألف دينار فيتسخطها) لاستقلاله إياها واحتقارها وهذا كناية عن كثرة المال واتساع الحال (وفتنة يدخل حرها) أي مشقتها وجهدها من كثرة القتل والنهب (بيت كل مسلم) قيل: وهي واقعة التتار إذ لم يقع في الإسلام بل ولا في غيره مثلها وقيل: غيرها وهي لم تقع بعد (وموت يأخذ في الناس كقعاص) بضم القاف بعدها عين مهملة فألف فصاد مهملة (الغنم) هو داء يقعص منه الغنم فلا تلبث أن تموت ذكر ذلك الزمخشري وقال غيره: داء يأخذ الدواب فيسيل من أنوافها شيء فتموت فجأة ويقال إن هذه الآفة ظهرت في طاعون عمواس في خلافة عمر فمات منها سبعون ألفا في ثلاثة أيام وكان ذلك بعد فتح بيت المقدس (وأن يغدر الروم فيسيرون بثمانين بندا تحت كل بند اثني عشر ألفا) وفي رواية بدل بند غابة أي بالباء الموحدة تحت كل غابة اثني عشر ألفا وفي رواية غاية بمثناة تحتية والغاية الأجمة شبه بها كثرة السلاح والغاية الراية ذكره كله الزمخشري."

(فيض القدير، حرف السين، (4/ 94)، ط: المكتبة التجارية الكبرى)

”معارف القرآن“ میں مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: 

﴿‌لَا ‌تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً﴾ [الأعراف: 187] یعنی قیامت تمہارے پاس اچانک ہی آئے گی ۔

بخاری ومسلم کی حدیث میں بروایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کے دفعہ اور اچانک آنے کے متعلق یہ بیان فرمایا کہ لوگ اپنے اپنے کاروبار میں مشغول ہوں گے، ایک شخص نے گاہک کو دکھلانے کے لیے کپڑے کا تھان کھولا ہوا ہو گا وہ ابھی معاملہ طے نہ کر پائیں گے کہ قیامت قائم ہو جائے گی ، ایک شخص اپنی اونٹنی کا دودھ دو کر لے چلے گا اور ابھی اُس کو استعمال کرنے نہ پائے گا کہ قیامت آجائے گی ، کوئی شخص اپنے حوض کی مرمت کر رہا ہوگا اس سے فارغ نہ ہو پائے گا کہ قیامت قائم ہو جائے گی ، کوئی شخص کھانے کا لقمہ ہاتھ میں اٹھائے گا ابھی منہ تک نہ پہنچے گا کہ قیامت برپا ہو جائے گی۔ “

(معارف القرآن، مفتی محمد شفیعؒ ، سورۃ الاعراف، 4/ 141، ط: مکتبۂ معارف  القرآن، کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603100663

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں