بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 جمادى الاخرى 1446ھ 06 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک قبرکےاوپردوسرے قبربنانےکی شرعی حیثیت


سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں  کہ میرے دادا اور دادی کے انتقال کو عرصہ 100 سال سے زائد ہو چکا ہے ۔

1:۔اب سوال یہ ہے کہ آیا ان کی قبروں میں ہم اپنی قبر بنا سکتے ہیں ؟

2:۔یا ان کی آدھی قبر کو اوپر سے ہٹا کر آدھی قبر کے اوپر ہم اپنی قبریں بنا سکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ پرانی قبر میں نئی میت کو رکھنا صرف اس صورت میں جائز ہے جب پرانی قبراتنی پرانی ہو جائے کہ میت اندازاً بالکل مٹی بن جائے، تو اس قبر میں دوسری میت کو دفن کرنا درست ہے، اوراگرقبراتنی  پرانی نہ ہوکہ  میت مٹی نہیں بنی ہوگی تو اس میں دوسری میت کو دفن کرنا جائز نہیں ہے۔

1:۔لہذاصورت مسئولہ میں اگرضرورت ہومثلاًکہ سائل اپنے مرحومین کوجس قبرستان میں دفن کرناچاہتےہوں اس میں جگہ نہ ہو،اسی طرح قریب میں بھی کوئی قبرستان نہ ہو تو  گنجائش ہے کہ آپ اپنے دادا،دادی کے قبرپرانی سوسالہ ،ظاہرہے  کہ سوسال کے عرصہ میں تقریباًتمام آثار میت ختم ہوچکےہوں گے،البتہ بہتریہ ہے کہ آپ اپنے  علاقے کے مبصرین جوزمین کی نرمی وسختی کےماہرین ہوں اور ان معاملات میں تجربہ رکھنے والے ہوں ایسےلوگوں سے مشورہ کر کے قبر کھولنے نہ کھولنے کا فیصلہ کریں،پھراگرمیت صحیح سالم موجودہوتوقبربندکردیں،ورنہ تدفین کرلیں۔

2:۔آدھی قبروالاطریقہ ممکن ہے سنت کےمطابق عمل نہ ہوسکے ایسے مت کریں۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

‌"ولا ‌يدفن ‌اثنان أو ثلاثة في قبر واحد إلا عند الحاجة."

(الباب الحادی والعشرون فی الجنائز، کتاب الصلوٰۃ، ج:1، ص:166، ط:دارالفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"‌فالأولى ‌إناطة ‌الجواز بالبلى إذ لا يمكن أن يعد لكل ميت قبر لا يدفن فيه غيره."

(كتاب الجنائز، مطلب في دفن الميت، ج:2، ص:234، ط:سعيد)

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح میں ہے:

"وسئل أبو بكر الأسكافي عن المرأة تقبر في قبر الرجل؟ فقال: إن كان الرجل قد بلي ولم يبق له لحم ولا عظم جاز، وكذا العكس، وإلا فإن كانوا لايجدون بداً يجعلون عظام الأول في موضع، وليجعلوا بينهما حاجزاً بالصعيد."

(كتاب الصلاة، باب أحكام الجنائز، فصل في حملهاودفنها، ص: 612،613، ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی دارالعلوم ذکریہ میں ہے:

”جواب:اگرغالب گمان ہے کہ میت بوسیدہ ہوکرخاک ہوگی تواس وقت دوسری میت کواس میں دفن کرنادرست ہے ورنہ نہیں۔“

(فتاوی دارالعلوم ذکریہ، ج:2، ص:642، ط:زمزم پبلشرز)

خیرالفتاوی میں ہے:

”جواب:قبریں جب خراب ہوجائیں توپھران کومحفوظ رکھنے کےلئے مٹی ڈالنایالیپناجائزہے،لیکن اس لیپنے یامٹی ڈالنے کےلئے کوئی دن مقرر کرناجائز نہیں ہے،اورقبریں جب کہ بے نشان ہوجائیں اورمیت بھی ان میں گل سڑکرمٹی ہوگئی ہوتوپھروہاں دوسری قبرنکالنااورمکان بنانااورزراعت کرناجائزہے،“

(خیرالفتاوی، ج:3، ص:314، ط:امدادیہ)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144602102347

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں