بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

یا اللہ میرا پرچہ اچھا کروا دے میں آج ہی جا کر سو رکعات نوافل ادا کروں گی سے نذرمنعقد ہونے کا حکم


سوال

ایک لڑکی جو کمرہ امتحان میں مشکل پرچہ دیکھ کر پریشان ہوئی جس میں پاس ہونا اُس کو مشکل ترین کام لگ رہا تھا، اس نے وہیں بیٹھ کر اللہ سے دعا کی کہ یا اللہ میرا پرچہ اچھا کروا دے میں آج ہی جا کر سو رکعات نوافل ادا کروں گی، جب کہ امتحان کا نتیجہ تین سے چار ماہ کے بعد ملنا تھا، اُس نے پرچہ حل کیا اور گھر آئی، لیکن گھر آ کر اپنے کہے کے مطابق نوافل ادا نہیں کیے، اس نے یہ ہی دعا تین سے چار پرچوں کو حل کرتے وقت کی، یعنی ایک ہی دن نہیں تین چار دنوں میں علیحدہ عليحده. اور ہر دفعہ یہ ہی کہا کہ آج ہی گھر جا کر رات کو قیام کروں گی لیکن ایسا ایک دفعہ بھی نہیں کیا۔ جب نتیجہ ملا تب وہ کچھ میں پاس تھی اور کچھ میں فیل۔ اب مختصر یہ بتائیں کہ اس کے لیے کیا حکم ہے؟ قضا یا کفاره؟ جبکہ پرچہ اچھا ہونے سے مراد اس کو ذہنی تسلی کا ہونا تھا لیکن ذہن مطمئن نہ تھا کہ اچھا ہوا ہے ۔ اور پھر معلوم تو نتیجہ ملنے پر ہوا کہ چار پرچوں کے لیے دعا کی اور دو میں پاس اور دو میں فیل، اسے ایک پرچہ اچھا ہونے پر تسلی بھی تھی۔

جواب

 صورتِ مسئولہ میں مذکورہ جملہ   سے کہ "یا اللہ میرا پرچہ اچھا کروا دے، میں آج ہی جا کر سو رکعات نوافل ادا کروں گی تو شرعا مذکورہ لڑکی کے یہ الفاظ "نذر" کے نہیں ہیں ان الفاظ سے  "  نذر منعقد نہیں ہو ئی ہے،کیوں کہ نذر(منّت   ) منعقد ہونے کے لیے  یہ شرط ہے کہ نذر کا جملہ شرط و جزا سے مرکب ہو ،یا یہ لفظ ہو "لله عليّ" یعنی مجھ پر اللہ کے واسطے واجب ہے ،یا صرف "عليّ"یعنی مجھ پر واجب ہے کہے تب ہی نذر واجب ہو گی،لہذا زیر نظر مسئلہ میں شرعا جب نذر منعقد نہیں ہوئی تو مذکورہ لڑکی پر سورکعات نفل ادا کرنا لازم نہیں ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"الكلام في هذا الكتاب في الأصل في ثلاثة مواضع: في بيان ‌ركن ‌النذر، وفي بيان شرائط الركن، وفي بيان حكم النذر أما الأول: فركن النذر هو الصيغة الدالة عليه وهو قوله: \" لله عز شأنه علي كذا، أو علي كذا، أو هذا هدي، أو صدقة، أو مالي صدقة، أو ما أملك صدقة، ونحو ذلك."

(کتاب النذر ،ج:5،ص:81،ط:سعید)

عمدۃ الفقہ میں ہے:

"ایک شرط یہ ہے کہ نذر کے الفاظ زبان سے ادا ہونے چاہیئں ،صرف دل میں نیت کر لینا کافی نہیں ہےاور نذر کا صیغہ شرط و جزا کا صیغہ ہے ،یعنی نذر کا جملہ شرط و جزا سے مرکب ہونا چاہیے ،یا یہ لفظ ہوں "لله علي" یعنی مجھ پر اللہ کے واسطے واجب ہے ،یا صرف "علي"یعنی مجھ پر واجب ہے کہے تب بھی نذر واجب ہونے کے لیے کافی ہے  ۔"

(نذر کا بیان ،ج:3،ص:369،ط:زوار اکیڈمی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503103032

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں