بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے متعلق ایک واقعہ کی تحقیق


سوال

ایک واقعہ سنا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو چابک سے مارا کیوں کہ وہ نہایت عاجزی و کمزوری سے چل رہا تھا ، آپ نے اس کو فرمایا کہ اگر وہ مسلمان ہے تو سینہ تان کر چلے۔

کیا یہ درست ہے؟صحیح واقعہ کیا ہے ؟ اور اس میں ہمارے لیے سبق کیا ہے؟

جواب

مذکورہ واقعہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی نسبت سے بعض کتب میں منقول ہے،البتہ  بعض جگہ پر آپ کی طرف سےصرف زبانی طور پر نکیر  ثابت ہے، جبکہ دوسری جگہ پر آپ رضی اللہ تعالي عنہ سےچابک مارنا بھی ثابت ہے۔ واقعہ کچھ اس طرح ہےکہ  آپ نے ایک نوجوان کو دیکھا جو سر جھکائے کھڑا تھا، آپ نےاس کو مخاطب کرکے فرمایا اے نوجوان! اپنا سر اوپر کرو، خشوع اور تقوی اس سے زیادہ نہیں جو دل میں ہو، یعنی تقوی کا تعلق دل سےہے، ظاہری شکل وصورت سے نہیں۔ اس میں ہمارے لیے یہ سبق ہے کہ اسلام ، اعتدال پسند مذہب  ہے، جس کا فلسفہ حیات یہ ہے کہ زندگی کے ہر باب میں تصنع اور غلو سے بچتے ہوئے اعتدال اختیار کرنا چاہیے۔

الجامع لأحكام القرآن للقرطبی میں ہے:

"ونظر ‌عمر بن الخطاب إلى شاب قد نكس رأسه فقال: يا هذا، ‌ارفع ‌رأسك؛ فإن الخشوع لا يزيد على ما في القلب. وقال علي بن أبي طالب: الخشوع في القلب، وأن تلين كفيك للمرء المسلم، وألا تلتفت في صلاتك. وسيأتي هذا المعنى مجودا عند قوله تعالى: "قد أفلح المؤمنون الذين هم في صلاتهم خاشعون" «1» [المؤمنون: 2 - 1] فمن أظهر للناس خشوعا فوق ما في قلبه، فإنما أظهر نفاقا علو نفاق. قال سهل بن عبد الله: لا يكون خاشعا حتى تخشع كل شعرة على جسده؛ لقول الله تبارك وتعالى: "تقشعر منه جلود الذين يخشون ربهم" «2» [الزمر: 23]. قلت: هذا هو الخشوع المحمود؛ لأن الخوف إذا سكن القلب أوجب خشوع الظاهر، فلا يملك صاحبه دفعه فتراه مطرقا متأدبا متذللا. وقد كان السلف يجتهدون في ستر ما يظهر من ذلك، وأما المذموم فتكلفه والتباكي ومطأطأة الرأس، كما يفعله الجهال؛ ليروا بعين البر والإجلال، وذلك خدع من الشيطان وتسويل من نفس الإنسان. روى الحسن أن رجلا تنفس عند ‌عمر بن الخطاب كأنه يتحازن فلكزه ‌عمر، أو قال: لكمه. وكان ‌عمر رضي الله عنه إذا تكلم أسمع، وإذا مشى أسرع، وإذا ‌ضرب أوجع، وكان ناسكا صدقا وخاشعا حقا. وروى ابن أبي نجيح عن مجاهد قال: الخاشعون هم المؤمنون حقا". 

(الجامع لأحكام القرآن، ج:1ص:375، ط: دار الكتب المصرية) 

 النهاية في غريب الحديث والأثر میں ہے:

"ومنه حديث ‌عمر: «رأى رجلا مطأطئا رأسه، فقال: ‌ارفع ‌رأسك؛ فإن الإسلام ليس بمريض» .

 (النهاية في غريب الحديث والأثر، ج:4، ص:380، ط: المكتبة العلمية )

مرآة الزمان في تواريخ الأعيان میں ہے:

" من کلام عمر رضي الله عنه، رأى رجلًا يتخاشَع، فضربه بالدرَّة وقال: ارفع رأسك؛ فإن التقوى ها هنا، وأشار إلى صدره."

(مرآة الزمان في تواريخ الأعيان لمؤلف  المعروف بـ «سبط ابن الجوزي، ج:4، ص:395، ط:دار الرسالة العالمية)

مدارج السالکین بین منازل ایاک نعبد وایاک نستعین میں ہے:

"ورٲی عمر الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ رجلا طٲطٲ رقبته فی الصلاۃ، فقال: يا صاحب الرقبة، ارفع رقبتك، ليس الخشوع في الرقاب، إنما الخشوع في القلوب."

(مدارج السالكين بين منازل إياك نعبد وإيك نستعين، ج: 1، ص: 517، ط: دار الكتب العربي بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502100732

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں