بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

”حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا انسانی حور ہیں باقی عورتوں کی مانند ان کو حیض ونفاس نہیں آتا“ روایت کی تخریج اور حکم


سوال

”سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا زمین پر حوروں کی طرح ہیں اور جس طرح ایک عام عورت بحیثیت عورت ہونے کے جو اس کے مخصوص ایام ہیں، یا اولاد ہوتے وقت جو مخصوص ایام ہواکرتے ہیں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ان تمام چیزوں سے پاک تھیں“۔

 کیا ایسی کوئی روایت ثابت شدہ ہے؟ اور اس کی کیا شرعی حیثیت ہے؟ اگر اس کو کوئی شخص مجمع عام میں بیان کرتا ہو تو کیا اسے یہ بیان کرنا چاہیے یا نہیں؟

جواب

سوال میں جس روایت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے یہ روایت "معجم الشيوخ للصيداوي (ت402هـ)" میں مذکور ہے، اسی طرح "تاريخ بغداد" میں غانم بن حمید راوی کے ترجمہ میں ذکر  کی گئی ہے، اس کے علاوہ "الموضوعات لابن الجوزي (ت597هـ)"، "اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة للسيوطي (ت 911هـ)"، اور  " تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة لابن عراق الكناني (ت963هـ)" میں بھی مذکور ہے، ذیل میں  "معجم الشيوخ للصيداوي (ت402هـ)" کے حوالہ سے پوری  سند کے ساتھ ذکر کی جاتی ہے: 

"حدثنا غانم بن حميد، ببغداد، حدثنا أبو عمارة أحمد بن محمد، حدثنا الحسن بن عمرو بن سيف السدوسي، حدثنا القاسم بن مطيب، حدثنا منصور بن صدقة، عن أبي معبد، عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ابنتي ‌فاطمة ‌حوراء آدمية لم تحض ولم تطمث، وإنما سماها ‌فاطمة؛ لأن الله عز وجل فطمها ومحبيها عن النار."

(معجم الشيوخ لابن جميع الصيداوي (ت 402هـ)، حرف الغين، ‌‌روايت: غانم بن حميد بن يونس الشعيري، (ص359)، ط: مؤسسة الرسالة)

ترجمہ: ”حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری بیٹی فاطمہ  بنی آدم کی حور ہے(یعنی انسانی حور ہے) اس کو  حیض نہیں آتی (باقی عورتوں کی طرح)، اس کا  فاطمہ  (چھوڑانے والا)نام  اس لیے رکھا ،  کیوں کہ اللہ تعالی نے  اس کو اور   اس سے محبت کرنے والوں کو جہنم کی آگ سے چھڑایا ہیں“۔

مذکورہ روایت کا حکم یہ ہے کہ یہ روایت موضوع ہے، خطیب بغدادیؒ فرماتے ہیں: "في إسناد هذا الحديث من المجهولين غير واحد، وليس بثابت." (اس روایت کی سند میں ایک سے  زیادہ مجہول رواۃ موجود ہیں، اور یہ روایت  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ) خطیب کے بعد سب کُتبِ موضوعات میں خطیب کے اسی قول کو  بنیاد بناکر  پیش  کیا گیا ہے۔

خلاصہ یہ ہوا کہ  مذکورہ روایت احادیث کی معتبر کتابوں میں موجود نہیں،   بلکہ موضوعات (من گھڑت روایات) کی  کتابوں میں موجود ہے ،  لہذا اس روایت کو بیان کرنے سے گریز کیا جائے، ہاں اگر کوئی بیان کرے تو کہہ دیں کہ یہ موضوع حدیث ہے۔

تاریخ بغداد میں ہے: 

"في إسناد هذا الحديث من المجهولين غير واحد، وليس بثابت."

(تاريخ بغداد، ترجمة: غانم بن حميد بن يونس بن عبد الله، (14/ 287)، ط: دار الغرب الإسلامي)

تلخیص کتاب الموضوعات میں ہے: 

"عن ابن عباس، مرفوعا: " ابنتي ‌فاطمة ‌حوراء آدمية لم تحض ولم تطمث، وإنما سماها ‌فاطمة؛ لأن الله فطمها محبيها من النار ". إسناده مظلم مجاهيل."

(تلخيص كتاب الموضوعات للذهبي، ومما وضع في فضل الحسن والحسين وأمهما عليهم السلام، (ص: 150)، ط: مكتبة الرشد)

اللآلی المصنوعہ میں ہے: 

"عن ابن عباس قال قال رسول الله: ابنتي ‌فاطمة ‌حوراء آدمية لم تحض ولم تطمث وإنما سماها ‌فاطمة لأن الله تعالى فطمها ومحبيها عن النار،قال الخطيب: ليس بثابت وفيه مجاهيل."

(اللآلی المصنوعة في الأحاديث الموضوعة، كتاب المناقب، (1/ 365)، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144602101483

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں