بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ہوائی جہاز میں قبلہ معلوم کرنے کا طریقہ اور نماز کا حکم


سوال

ہماراسفر ہے، فلائٹ میں ہم قبلہ رخ کیسے معلوم کریں؟

اور اگر جہاز کے عملےکو نماز کے وقت میں نماز پڑھنے سےمشکل پیش آ رہی ہو، اور وہ ہمیں اجازت نہ دیں، تو ہم نماز کس طرح ادا کریں؟

جواب

مسافر کو چاہیے کہ ہوائی سفر میں سب سے پہلے سورج چاند یا ستاروں کے ذریعے سےسمت ِ قبلہ معلوم کرنے کی کوشش کرے،اگر اس طریقہ سے درست سمت کا تعین نہ ہوسکے  اور جہاز میں  کوئی بتانے والا  موجودہو جسے قبلہ کا صحیح علم ہو تو اس سے پوچھ لے،ورنہ  خود غور فکر کرےیا  قطب نما ، قبلہ ایپلی کیشن  یا دوسرے جدید ذرائع  سے قبلہ معلوم کرنے کی کوشش کرے پھر  جس جہت کے متعلق قبلہ ہونے کا ظنِ غالب ہو  اُس طرف رخ کرکے نماز پڑھ لے۔

2۔ہوائی جہاز میں بوقت ِ پرواز اگر  رکوع سجدے کے ساتھ نماز پڑھنا ممکن ہوتو وقت میں نماز پڑھنا ضروری ہے،اور اگر باقاعدہ رکوع و سجدے اور استقبال قبلہ  کے ساتھ نماز پڑھنے میں سخت مشقت ہو( جگہ کی تنگی یا عملے کے منع کرنے کی وجہ سے) تو وقت میں اپنی جگہ پر بیٹھ کر رکوع و سجدے کے اشارے کے ساتھ نماز پڑھ لے، لیکن بعد میں اس نماز کو لوٹانا واجب  ہوگا، بے نمازی عملہ روکتا ہے، ورنہ سعودی ائیرلائن میں باقاعدہ نماز باجماعت کی جگہ ہوئی ہے ، جماعت سے مسافر نماز ادا کرتے ہیں اس سے معلوم ہوا جو منع کرتے ہیں غلط کہتے و کرتے ہیں۔

لمافي"الفتاوى  الهندية":

"وجهة الكعبة تعرف بالدليل والدليل في الأمصار والقرى المحاريب التي نصبها الصحابة والتابعون فعلينا اتباعهم فإن لم تكن فالسؤال من أهل ذلك الموضع وأما في البحار والمفاوز فدليل القبلة النجوم. هكذا في فتاوى قاضي خان........

لو دخل بلدة وعاين المحاريب المنصوبة يصلي إليها ولا يتحرى وكذا لو كان في المفازة والسماء مصحية وله علم باستدلال النجوم على القبلة لا يتحرى. كذا في محيط السرخسي .رجل دخل مسجدا لا محراب له وقبلته مشكلة فصلى بالتحري ثم ظهر أنه أخطأ كان عليه الإعادة؛ لأنه قادر على السؤال من الأهل وإن تبين أنه أصاب جازت صلاته. كذا في فتاوى قاضي خان ولو سألهم فلم يخبروه وتحرى وصلى جاز وإن تبين أنه أخطأ. كذا في محيط السرخسي".

(كتاب الصلوة، فصل في استقبال القبلة، ج: 1،ص: 63،64 ، ط: دار الفكر)

لما في" معارف السنن":

"وأما الطائرات حالة طيرانها في جو السماء أو عند وقوفها في الفضاء فيصلى فيها قائما برکوع و سجود مستقبلا للقبلة عند القدرة على القيام كما يمكن ذلك في الطيارات الكبيرة ."

(كتاب الصلوة ،ج:3،ص: 395،ط: بنوری ٹاؤن )

لما في" الفقه الإسلامي وأدلته ":

"تجوز الصلاة الفرضية في السفينة والطائرة ، والسيارة قاعداً ولو بلاعذر عند أبي حنيفة ، ولكن بشرط الركوع والسجود ، وقال الصاحبان : لا تصح إلا لعذر وهو الأظهر ."

( تتمة الصلاة ، الصلاة في السفينة ،ج:2،ص:44، ط: دار الفكر ، بيروت)

لمافي" الدر مع الرد ":

"فاقد الطهورين يؤخرها عنده وقالا يتشبه بالمصلين وجوباً ، فيركع و يسجد إن وجد مكانا يابساً وإلا يؤمى قائماً ثم يعيد كالصوم ."

(كتاب الطهارة ، باب التيمم، مطلب في فاقد الطهورين ،ج:1،ص:253، ط : سعيد )

لما في: البحر الرائق":

"و في الخلاصة و فتاوى قاضي خان و غيرهما: الأسير في يد العدو إذا منعه الكافر عن الوضوء و الصلاة يتيمم و يصلي بالإيماء ثم يعيد إذا خرج، و كذا لو قال لعبده: إن توضأت حبستك أو قتلتك، فإنه يصلي بالتيمم ثم يعيد كالمحبوس؛ لأن طهارة التيمم لم تظهر في منع وجوب الإعادة، و في التجنيس: رجل أراد أن يتوضأ فمنعه إنسان عن أن يتوضأ بوعيد، قيل: ينبغي أن يتيمم و يصلي ثم يعيد الصلاة بعد ما زال عنه؛ لأن هذا عذر جاء من قبل العباد فلا يسقط فرض الوضوء عنه اهـ. فعلم منه أن العذر إن كان من قبل الله تعالى لا تجب الإعادة و إن كان من قبل العبد وجبت الإعادة."

(کتاب الطهارة، باب التیمم، 1/ 149، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144505101399

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں