بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہواخارج ہو نے کے شبہ کی صورت میں وضو کا حکم


سوال

کیا صرف ایک بار تمام کفر و شرک سے توبہ کر کے تجدید ایمان کر لینے سے دائرہ اسلام میں داخل ہو جاتے ہیں یا بار بار کرنا چاہئے؟ میں نے وضو کے بغیر نماز پڑھی لیکن کبھی اسکو جائز نا سمجھا مطلب مجھے ایسا لگتا تھا کہ میرا وضو ٹوٹ گیا ہے لیکن مجھے یقین نہیں ہوتا تو اس لئے میں نماز پڑھ لیتی اسی وضو سے کیا یہ بھی کفر ہے؟کیونکہ میں جب وضو کرنے کا سوچتی ہوں تب مجھے محسوس ہوتا ہے جیسے بار بار ہوا خارج ہو رہی ہو اور اسی دوران کئی دفعہ ایسا لگتا جیسے واقعی ہوا خارج ہو گئی ہو اور جیسے ہی نماز پڑھوں تو ہوا کا خروج بند ہو جاتا تو اس صورت میں کیا حکم ہے؟

جواب

صورت مسئولہ  میں ایک بار  صدق دل سے تو بہ کر نے  کے بعد  بار با توبہ کر نا  ضروری نہیں ایک بار ہی کافی ہے ، اسی طرح جب تک ہوا خارج ہونے کا یقین نہ ہوجائے اس وقت تک وضو برقرار رہتا ہے، اور ہوا خارج ہونے کا یقین یا تو  آواز سے ہوتاہے یا بدبو سے،محض حرکت  کی وجہ سے شک و  شبہ کی بنا پر وضو نہیں ٹوٹتا،   لیکن اگر یقین ہو کہ وضو ٹوٹا ہےاور  وضو کرنے کے بعد وضو برقرار نہ رہتا ہو ،  بار بار ہوا خارج ہوتی ہو اوریہ سلسلہ کسی بھی ایک  نماز کے پورے وقت جاری رہے اور اتنا وقفہ بھی نہ ہوجس میں آپ وضو کرکے اس وقت کی فرض نماز پڑھ سکیں تو آپ  شرعی معذور کے حکم میں ہوں گی ، یعنی ہر نمازکا وقت داخل ہونے پر وضو کریں اور اس ایک  وضو سے فرض نماز(وقتی اور قضا دونوں) اور اس کے ساتھ سنتیں اور نوافل وغیرہ پڑھ لیں،اور اگر تلاوت قرآن کرنا چاہیں تو اسی وضو سے کرسکتی ہیں، اسی طرح سجدہ تلاوت بھی کرسکتی  ہیں،   پھر  اگلی نماز کے وقت  دوبارہ وضو کریں ، جب تک  کسی نماز کا مکمل وقت ہوا خارج ہوئے بغیر نہ گزر جائے آپ معذورِ شرعی کے حکم میں ہوں گی ، اسی طرح وضو ٹوٹنے کے شک کے ساتھ  جو نماز پڑھی ہے  اس سے  کفر لازم نہیں آیا ہے اس لیے کہ  شک کی  وجہ سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے ۔

مر قاۃ شرح مشکاۃ میں ہے:

"عن أبي هريرة قال: قال رسول الله ﷺَ: (لا وضوء إلّا من صوت أو ریح)

(عن أبي هریرة قال: قال رسول الله صلی الله علیه وسلم: إذا وجد أحدکم في بطنه شیئًا فأشکل علیه أخرج منه شيء أم لا، فلایخرجنّ من المسجد حتی یسمع صوتًا أو یجد ریحًا)،  و هذا مجاز عن تیقن الحدیث؛ لأنّهما سبب العلم بذلك".

(مرقاة المفاتیح شرح مشکاة المصابیح، ج:2، ص:30، ط:مکتبة رشیدیة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"شرط ثبوت العذر ابتداءً أن یستوعب استمراره وقت الصلاة کاملاً، وهو الأظهر، کالانقطاع لایثبت مالم یستوعب الوقت کله ... المستحاضة ومن به سلس البول … یتوضؤن لوقت کل صلاة، ویصلون بذلک الوضوء في الوقت ماشاؤا من الفرائض و النوافل … ویبطل الوضوء عند خروج وقت المفروضة بالحدث السابق … إذا کان به جرح سائل وقد شد علیه خرقةً فأصابها الدم أکثر من قدر الدرهم، أو أصاب ثوبه إن کان بحال لوغسله یتنجس ثانیاً قبل الفراغ من الصلاة، جاز أن لا یغسله وصلی قبل أن یغسله وإلا فلا، هذا هو المختار."

(كتاب الطهارة،الباب السادس،40،41/1،ط:رشيديه)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501100890

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں