بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رسول اکرم ﷺ کے سایہ سے متعلق تحقیق


سوال

‏آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سایہ کے متعلق احناف دیوبند کا متفقہ موقف کیا ہے؟

جواب

اہلِ سنت والجماعت کے نزدیک راجح قول کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ تھا اور زمین پر پڑتا تھا یہی اصل ہے، جیساکہ مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ   نے "مأمول القبول في ظل الرسول" (مشمولہ فتاویٰ دار العلوم دیوبند، امداد المفتین، جلد 2 صفحہ 258 -260) میں تحریر فرمایا ہے۔

عوام میں جو مشہور ہے کہ  حضور ﷺ کا سایہ نہ تھا  یہ کسی صحیح و صریح روایات سے ثابت نہیں ہے، تاہم بعض روایات میں جو یہ بات ہے کہ آپﷺ کا سایہ زمین پر نہیں پڑتاتھا (الخصائص الکبری،باب ذکرالمعجزات، ج:1، ص:116، ط:دارالکتب العلمیه) تو وہ روایت محدثین کے نزدیک  کمزور اور ناقابلِ اعتماد ہے، اس کے برخلاف  احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور ﷺ کا سایہ تھا۔ 

جامعہ کے سابقہ فتاویٰ میں مولانا مفتی حبیب اللہ مختار شہید رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:

’’اس بارے میں حضرت مفتی محمد شفیع صاحب مدظلہ کی تحقیق صحیح ہے، تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ان کا رسالہ "مامول القبول فی ظل الرسول" (فتاویٰ دار العلوم دیوبند)، خلاصہ یہ ہے کہ اگر صحیح حدیث سے یہ بات ثابت ہوجاتی کہ بطورِ معجزہ نبی کریم ﷺ کا سایہ زمین پر نہ پڑتا تھا تو کوئی مسلمان بھی اس کے تسلیم کرنے سے انکار نہیں کرسکتا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس باب میں نقل صحیح حدیث کی موجود نہیں ہے، حدیث کی کتبِ متداولہ، صحاحِ ستہ وغیرہ میں اس مضمون کی کوئی حدیث وارد نہیں ہے، صرف "خصائصِ کبریٰ" میں شیخ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے اس مضمون کی مرسلاً ایک حدیث روایت کی ہے۔ اس کی سند میں رواۃ یہ ہیں:

1- عبد الرحمٰن بن قیس الزعفرانی۔ 2- عبد الملک بن عبد اللہ بن الولید۔

پہلے راوی "عبدالرحمٰن بن قیس" کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ بالکل ضعیف، مجروح اور کاذب اور ناقابلِ اعتبار راوی ہے، بلکہ بعض حضرات نے تو یہ بھی کہا ہے کہ یہ جھوٹی حدیثیں وضع کرتا تھا ۔۔۔ ایسا ہر وقت پیش آنے والا واقعہ اور اتنا عام معجزہ تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ اسے ایک کثیر التعداد جماعت نقل کرتی، خصوصًا صحابہ کرام جیسے جاں نثار فدائی اور ہر قول و فعل کے ضبط کرنے والے، حرکات و سکنات کو محفوظ کرنے والے موجود ہوں، لیکن عجیب بات ہے کہ اتنی بڑی جماعت میں سے اسے کوئی بھی نقل نہیں کرتا، صرف ایک مرسل اور سندًا بالکل ضعیف اور واہی روایت مذکور ہے، یہ اس بات کی بیّن دلیل اور کھلا ہوا ثبوت ہے کہ یہ بات خلافِ واقعہ ہے ۔۔۔ بعض حضرات نے سایہ نہ ہونے کی یہ توجیہ کی ہے کہ جس طرف آپ ﷺ چلتے تھے، سر مبارک پر فرشتے یا ابرِ رحمت سایہ فگن رہتا تھا، یہ بھی اگر ثابت ہے تو دوسری صحیح و صریح روایات اس کے معارِض موجود ہیں، مثلاً: صحیح بخاری میں حدیث ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں:

"إنّ أبا بکر قام للناس، وجلس رسول اللہ ﷺ صامتًا، فطفق من جاء من الأنصار ممن لم یر رسول اللہ ﷺ یحیی أبابکر، حتی أصابت الشمس رسول اللہ ﷺ عند ذلك، فأقبل أبوبکر حتی ظلّل علیه بردائه، فعرف الناس رسول اللہ ﷺ".

اسی طرح حجۃ الوداع میں حضور اکرم ﷺ پر سایہ کیا گیا تھا، عام کتابوں میں موجود ہے۔ اس لیے یا تو سایہ والی حدیث کو بمقابلہ ان روایات کے غیر ثابت قرار دیا جائے، یا یہ کہا جائے کہ پہلے ایسا ہوتا تھا بعد میں یہ صورت نہ رہی۔ علامہ قسطلانی نے "مواہب" میں اسی صورت کو اختیار کیا ہے، چناں چہ حدیثِ ہجرت (جس کو ابھی ہم نے ذکر کیاہے) کو نقل کرنے کے بعد فرمایاہے:

"وظاهر هذا أنه علیه الصلاۃ و السلام کانت الشمس تصیبه، وما تقدم من تظلیل الغمام والملك له، کان قبل بعثه، کما هو مصرح في موضعه."

خلاصہ یہ کہ آپ ﷺ کے سایہ ہونے کے دلائل قوی اور راجح ہیں، مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے بھی اسے ہی صحیح اور راجح قرار دیا ہے، ملاحظہ ہو: امداد الفتاویٰ، 405، 406) فقط واللہ اعلم

                  الجواب صحیح                                             کتبہ

                  ولی حسن                                        محمد حبیب اللہ مختار‘‘

آپ ﷺ کےسایہ ہونے سے متعلق "مسندِ احمد" کی صحیح حدیث  درج ذیل ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں کہ جن دنوں رسول اللہ ﷺ نے ان کے ہاں ایک وجہ سے آنا موقوف فرمادیا تھا،  اچانک ایک دن دوپہر کے وقت رسول اللہ ﷺ کا سایہ میں نے دیکھا۔

مسند أحمد  میں ہے:

"عن عائشة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان في سفر له، فاعتل بعير لصفية، وفي إبل زينب فضل، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن بعيراً لصفية اعتل، فلو أعطيتها بعيراً من إبلك! فقالت: أنا أعطي تلك اليهودية؟ قال: فتركها رسول الله صلى الله عليه وسلم ذا الحجة والمحرم شهرين، أو ثلاثة، لايأتيها، قالت: حتى يئست منه، وحولت سريري، قالت: فبينما أنا يوماً بنصف النهار، إذا أنا بظل رسول الله صلى الله عليه وسلم مقبل، قال عفان: حدثنيه حماد، عن شميسة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، ثم سمعته بعد يحدثه عن شميسة، عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وقال: بعد حج أو عمرة، قال: " ولا أظنه إلا قال: في حجة الوداع".

(مسند احمد بن حنبل، رقم الحديث:25516، ج:6، ص:132،  ط:دارالكتب العلمية.بيروت)

مسند أحمد  میں ہے:

" عن صفية بنت حيي، أن النبي صلى الله عليه وسلم حج بنسائه، فلما كان في بعض الطريق، نزل رجل، ...  فلما كان شهر ربيع الأول، دخل عليها، فرأت ظله، فقالت: إن هذا لظل رجل، وما يدخل علي النبي صلى الله عليه وسلم، فمن هذا؟ فدخل النبي صلى الله عليه وسلم[ص:437]، فلما رأته قالت: يا رسول الله، ما أدري ما أصنع حين دخلت علي؟ قالت: وكانت لها جارية، وكانت تخبؤها من النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت: فلانة لك، فمشى النبي صلى الله عليه وسلم إلى سرير زينب، وكان قد رفع، فوضعه بيده، ثم أصاب أهله، ورضي عنهم".

(مسند أحمد بن حنبل، رقم الحديث:2567،  ج:1، ص:284،ط:دارالكتب العلمية، بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144203200384

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں