بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حضوراکرمﷺ کی تجہیز وتکفین کا وقت!


سوال

آپ صل اللہ علیہ وسلم کی تہجیز وتکفین وفات کے کتنے گھنٹے بعد عمل میں آئی؟

جواب

 آپ ﷺ کی وفات مشہور قول کے مطابق سن گیارہ ہجری، ماہ ربیع الاول میں بروز  پیر دوپہر کے وقت ہوئی، اس روز خلافت کے معاملات طے ہونے کے بعد اگلے دن بروز منگل  حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور ان کے دو صاحب زادوں نے آپ ﷺ کی تجہیز و تکفین کی، تجہیز و تکفین کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بروز منگل پورا دن گروہ در گروہ نماز  جنازہ ادا کی، اور پھر بدھ کے درمیانی شب میں آپﷺ کی تدفین ہوئی۔

درحقیقت یہ حادثہ معمولی حادثہ نہیں تھا، آپ ﷺ کے عاشقینِ صادقین کے لیے اس سے بڑا صدمہ ہو ہی نہیں سکتا تھا، دوسری طرف منافقین اور رسول اللہ ﷺ کے دشمن آپ ﷺ کے وصال پر خوش تھے، اس نازک مرحلے پر مدینہ اور اِرد گرد کے منافقین کی طرف سے شورش و فتنے کا غالب امکان تھا، بلکہ اس کا اِظہار ہوا ہی تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تلوار نکال کر اعلان فرمادیا تھا کہ جس نے کہا رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی ہے اُس کی گردن ماردوں گا، مرتدین نے تو علمِ بغاوت بلند کر ہی دیا تھا، اور کھلے ہوئے دشمنانِ دین تو پہلے سے ہی تیار تھے، تیسرا پہلو یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی تجہیز و تکفین و تدفین و نمازِ جنازہ ایسے اہم امور تھے جس کی انجام دہی کسی امیر اور ذمے دار کی راہ نمائی کے بغیر ممکن بھی نہیں تھی، اولاً  اس حوالے سے سب کے ذہنوں میں ہدایات نہیں تھیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ ﷺ سے جدائی کا سوچا ہی نہیں تھا کہ اس پہلو سے ہدایات جمع کرتے، پھر ایسے موقع پر آراء کا اختلاف اور کسی ذمہ دار کا فیصلہ اور راہ نمائی طبعی امور ہوتے ہیں، لہٰذا فطری طور پر خلیفہ کا انتخاب ان امور کی انجام دہی کے لیے بھی ضروری ہوگیا تھا، چناں چہ اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تجہیز و تکفین کی ذمہ داری اہلِ بیتِ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سپرد کی، جیساکہ میت کی تجہیز و تکفین اس کے گھر والے ہی کیا کرتے ہیں، جب تک اہلِ بیت ان امور سے فارغ ہوئے، مسلمانوں کے امیر کا انتخاب بھی ہوچکا تھا، اس دوران مسلسل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ راہ نمائی بھی فرماتے رہے، ان ہی کی راہ نمائی سے آپ ﷺ کی قبر مبارک کی جگہ اور نمازِ جنازہ کا طریقہ وغیرہ طے ہوا، ان مذکورہ اہم امور و مسائل کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کی تدفین کے عمل میں اتنا وقت صرف ہوا۔

’’جمع الوسائل فی شرح الشمائل‘‘ میں ہے:

’’قال في جامع الأصول: كان ابتداء مرض النبي صلى الله عليه وسلم من صداع عرض له، وهو في بيت عائشة ... ومات يوم الاثنين ضحى من ربيع الأول في السنة الحادية عشرة من الهجرة ..." الخ

(باب ما جاء في وفاة رسول الله صلى الله عليه وسلم:۲/۲۰۲،ط: المطبعة الشرفية، مصر ، طبع على نفقة مصطفى البابي الحلبي وإخوته) 

السیرۃ النبویۃ ابن ہشام میں ہے:

"قال ابن اسحاق: فلما بويع أبو بكر رضي الله عنه أقبل الناس على جهاز رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الثلاثاء، فحدثني عبدالله بن أبي بكر وحسين بن عبدالله وغيرهما من أصحابنا أن علي بن أبي طالب والعباس بن عبدالمطلب والفضل بن العباس وقثم بن العباس وأسامة بن زيد وشقران مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم هم الذين ولوا غسله..."

(باب جهاز رسول الله صلى الله عليه وسلم ، ج:6، ص:83، ط:دار الجيل)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144201200745

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں