صحابہ کرام رضوان اللہ تعالي علیہم اجمعین جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کرتے تھے تو زیارت کے وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زبان پر کیا الفاظ ہوتے تھے؟
واضح رہے کہ کتبِ حدیث میں مذکور مختلف روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انتہائی ادب واحترام کی بناپر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نامِ نامی اسم گرامی سے مخاطب نہیں فرماتے تھے، بلکہ وہ حضرات عام طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو "يَارَسُوْلَ اللهِ"(اے اللہ کے رسول) کہہ کر مخاطب فرمایا کرتے تھے۔ البتہ مختلف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مختلف مواقع پر فرطِ شوق ومحبت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو "بِأَبِيْ أَنْتَ وَأُمِّيْ يَا رَسُوْلَ اللهِ"(اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں) کہہ کر مخاطب کرنا بھی مذکور ہے، بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ الفاظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے موقع پر ارشاد فرمائے ہیں، بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کوئی سوال کرتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان الفاظ سے مخاطب فرمایا ہے ، اور بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے بعض اعمالِ صالحہ کے اخروی اجروثواب اور انعامات سن کر فرطِ شوق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان الفاظ سے مخاطب فرمایا ہے۔بہرکیف! عام طور پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو "يَارَسُوْلَ اللهِ"(اے اللہ کے رسول) کہہ کر مخاطب فرمایا کرتے تھے، البتہ زیارت ودیگر مواقع پر ان حضرات کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو "بِأَبِيْ أَنْتَ وَأُمِّيْ يَا رَسُوْلَ اللهِ"(اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں) کہہ کر مخاطب کرنا بھی مذکور ہے۔ذیل میں روایات کی روشنی میں اس کے کچھ حوالہ جات ذکر کیے جاتے ہیں:
"صحيح البخاري" میں ہے:
"حدّثنا إبراهيم بنُ المنذر، قال: حدّثني مَعنٌ، قال: حدّثني مالِكٌ عن ابن شهابٍ عن حُميد بن عبد الرحمن عن أبي هريرة -رضي الله عنه- أنّ رسول الله -صلّى الله عليه وسلّم- قال: مَنْ أنفق زوجینِ في سبيلِ الله نُودِي مِنْ أبواب الجنّة: يا عبدَ الله! هَذا خيرٌ، فمن كان مِنْ أهلِ الصّلاة دُعِي مِنْ بابِ الصّلاة، ومَنْ كان مِنْ أهلِ الجهاد دُعِي مِنْ بابِ الجهاد، ومَنْ كان مِنْ أهلِ الصِّيام دُعِي مِنْ بابِ الرّيّان، ومَنْ كان مِنْ أهلِ الصّدقة دُعِي مِنْ بابِ الصّدقة، فقال أبو بكرٍ- رضي الله عنه-: بِأَبِيْ أَنْتَ وَأُمِّيْ يَا رَسُوْلَ اللهِ مَا علَى مَنْ دُعِي مِنْ تلكَ الأبواب مِنْ ضرورةٍ، فهل يُدعى أحدٌ مِنْ تلكَ الأبواب كلِّها، قال: نَعم! وأرجُو أنْ تكُونَ مِنهُم".
(صحيح البخاري، كتاب الصوم، باب الريان للصائمين، 3/25، رقم: 1897، ط: دار طوق النجاة)
ترجمہ:
’’(حضرت) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ کے راستے میں باربار خرچ کرتا ہے(یا ہرچیز کے دو جوڑے خرچ کرتا ہے) اس کو جنت کے (متعدد) دروازوں سے پکارا جائے گا:اے اللہ کے بندے! یہ( دروازہ تیرے لیے) بہتر ہے(ادھر آ)، اور جس شخص کو (نفل) نماز سے دلچسپی ہوگی اس کو"بابُ الصّلاة"(نماز کے دروازے) سے پکارا جائے گا، اور جس شخص کو جہاد سے زیادہ دلچسپی ہوگی اس کو"بابُ الجهاد"(جہاد کے دروازے ) سے پکارا جائے گا، اور جس شخص کو(نفلی) روزوں سے زیادہ دلچسپی ہوگی اس کو"بابُ الريّان"( سیرابی کے دروازے) سے پکارا جائے گا، اور جس شخص کو صدقہ سے زیادہ دلچسپی ہوگی اس کو"بابُ الصّدقة"( صدقہ کے دروازے) سے پکارا جائے گا، (حضرت) ابوبکر رضی اللہ عنہ نے (یہ سن کر) عرض کیا:میرے ماں باپ آپ پر قربان!اگر کسی کو ان دروازوں میں سے( کسی ایک دروازے سے بھی ) بلایا جائے تو اسے کوئی ضرورت نہیں (کہ کسی اور دروازے سے بھی اسے بلایا جائے، وہی دروازہ اس کے لیے جنت میں جانے کے لیے کافی ہے)، مگر کیا کوئی ایسا شخص بھی ہوسکتا ہے جس کو سبھی دروازوں سے بلایا جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہاں! اور مجھے امید ہے کہ تم ان میں سے ہو‘‘۔
وفيه أيضاً:
"حدّثنا عمر بنُ حفصٍ، حدّثنا أبي، حدّثنا الأعمش، عن المعرور عن أبي ذرٍّ -رضي الله عنه- قال: انتهيتُ إليه وهو في ظِلّ الكعبة، يقولُ: هُم الأخسرون وربِّ الكعبة، هُم الأخسرون وربِّ الكعبة، ... فقلتُ: مَنْ هُم بِأَبِيْ أَنْتَ وَأُمِّيْ يَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قال: الأكثرون أموالاً، إلّا مَنْ قال هَكذا، وهَكذا، وهَكذا".
(صحيح البخاري، كتاب القدر، باب كيف كانت يمين النبي صلى الله عليه وسلم، 8/130، رقم:6638، ط: دار طوق النجاة)
ترجمہ:
’’ (حضرت) ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: (ایک مرتبہ) میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اس وقت پہنچا جب کہ آپ کعبہ کے سایہ میں( تشریف فرما )تھے، آپ فرمارہے تھے:ربِ کعبہ کی قسم! وہ لوگ بڑے ٹوٹے میں ہیں، رب ِ کعبہ کی قسم! وہ لوگ بڑے ٹوٹے میں ہیں،۔۔۔۔میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ! کون ہیں وہ لوگ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ لوگ جو زیادہ مال جمع کرتے ہیں، ہاں( وہ لوگ مستثنی ہیں) جو اس طرح، اس طرح، اس طرح سے خرچ کرتے ہیں (یعنی اپنے آگے پیچھے ، دائیں بائیں ہر طرف سے اور ہرجگہ پر اللہ تعالی کی خوشنودی کی خاطر خرچ کرتے ہیں)‘‘۔
"سنن الترمذي"میں ہے:
"حدّثنا أحمد بنُ الحسن، قال: حدّثنا سُليمان بنُ عبد الرحمن الدِّمشقيُّ، قال: حدّثنا الوليد بنُ مُسلمٍ، قال: حدثنا ابنُ جُريجٍ عن عطاء بن أبي رباحٍ، وعِكرِمة، مولى ابن عبّاسٍ عن ابن عبّاسٍ -رضي الله عنهما- أنّه قال: بينما نحنُ عند رسول الله -صلّى الله عليه وسلّم- إذ جاءه علي بنُ أبي طالبٍ فقال: بِأَبِيْ أَنْتَ وَأُمِّيْ ... إلخ".
(سنن الترمذي، أبواب الدعوات، باب في دعاء الحفظ، 5/563، رقم:3570، ط: مصطفى البابي الحلبي - مصر)
ترجمہ:
’’(حضرت عبد اللہ) ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ (حضرت) علي بن ابی طالب رضی اللہ عنہ آ ئے اور انہوں نے عرض کیا:میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں( اسی روایت کے بعض طرق میں: "بِأَبِيْ أَنْتَ وَأُمِّيْ يَا رَسُوْلَ اللهِ"(اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں)کے الفاظ بھی مذکور ہیں)۔۔۔‘‘۔
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144503101668
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن