بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چاند کے دو ٹکڑے ہونے کے دلائل اور حضور علیہ السلام کی انگشت مبارک سے چاند کے دو ٹکڑے ہونے کی تحقیق


سوال

آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی انگشت سے چاند کے ٹکڑے ہوگئے تھے ، کیا یہ بات صحیح ہے ؟ دلائل سے واضح کریں!

جواب

واضح رہے کہ انبیاء  ِکرام علیہم السلام سے جن خوارقِ عادت (خلافِ عادت) امور کاظہور ہوتا ہے اُنہیں ’’معجزہ‘‘ کہاجا تا ہے،آپ صلی اللہ  علیہ وسلم کے متعدد معجزات کا ذکر قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ میں موجود ہے، جن میں سے ایک’’  معجزہ شق القمر(چاند ٹکڑے ہونا)‘‘ بھی ہے، قرآِنِ کریم میں   میں اللہ تعالی نے’’ سورہ قمر ‘‘کے شروع میں اجمالاً اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے،چنانچہ ارشادِ باری تعالی ہے:اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ،وَإِنْ يَرَوْا آيَةً يُعْرِضُوا وَيَقُولُوا سِحْرٌ مُسْتَمِرٌّان آیات کے  ذیل میں مفتی محمد شفیع عثمانی  رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر ’’معارف القرآن ‘‘ میں تفصیل سے چاند کے  ٹکڑے ہوجانے کے دلائل اوراس پر  وارد شبہات کا ذکر کیا ہے ، ان کی تحریر کردہ تفصیل ملاحظہ فرمائیے: 

 ’’معجزہ شق القمر :

کفار مکہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپ کی نبوت و رسالت کے لئے کوئی نشانی معجزہ کی طلب کی ، حق تعالیٰ نے آپ کی حقانیت کے ثبوت کے لئے یہ معجزہ شق القمر ظاہر فرمایا، اس معجزہ کا ثبوت قرآن کریم کی اس آیت میں بھی موجود ہےوانْشَقَّ الْقَمَرُ، اور احادیث صحیحہ جو صحابہ کرام کی ایک جماعت کی روایت سے آئی ہیں جن میں حضرت عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عمر ، جبیر بن مطعم، ابن عباس، انس بن مالک (رضی اللہ عنہم اجمعین) وغیرہ شامل ہیں ، اور حضرت عبداللہ بن مسعود خود اپنا اس وقت میں موجود ہونا اور معجزہ کا مشاہدہ کرنا بھی بیان فرماتے ہیں ، امام طحادیؒ اور ابن کثیرؒ نے واقعہ شق القمر کی روایات کو متواتر قرار دیا ہے ، اس لئے اس معجزہ نبوی کا وقوع قطعی دلائل سے ثابت ہے ۔
واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ مکرمہ کے مقام منیٰ میں تشریف رکھتے تھے ، مشرکین مکہ نے آپ سے نبوت کی نشانی طلب کی ، یہ واقعہ ایک چاندنی رات کا ہے ، حق تعالیٰ نے یہ کھلا ہوا معجزہ دکھلا دیا کہ چاند کے دو ٹکڑے ہو کر ایک مشرق کی طرف دوسرا مغرب کی طرف چلا گیا اور دونوں ٹکڑوں کے درمیان میں پہاڑ حائل نظر آنے لگا ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سب حاضرین سے فرمایا کہ دیکھو اور شہادت دو ، جب سب لوگوں نے صاف طور پر یہ معجزہ دیکھ لیا تو یہ دونوں ٹکڑے پھر آپس میں مل گئے ، اس کھلے ہوئے معجزہ کا انکار تو کسی آنکھوں والے سے ممکن نہ ہوسکتا تھا، مگر مشرکین کہنے لگے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سارے جہان پر جادو نہیں کرسکتے ، اطراف ملک سے آنے والے لوگوں کا انتظار کرو وہ کیا کہتے ہیں ، بیہقی اور ابو داؤد طیالسی کی روایت حضرت عبداللہ بن مسعود سے ہے کہ بعد میں تمام اطراف سے آنے والے مسافروں سے ان لوگوں نے تحقیق کی تو سب نے ایسا ہی چاند کے دو ٹکڑے دیکھنے کا اعتراف کیا۔
بعض روایات میں ہے کہ یہ معجزہ شق القمر مکہ مکرمہ میں دو مرتبہ پیش آیا مگر روایات صحیحہ سے ایک ہی مرتبہ کا ثبوت ملتا ہے (بیان القرآن) ۔

اس معاملہ سے متعلق چند روایاتِ حدیث یہ ہیں (جو تفسیر ابن کثیر سے لی گئی ہیں ):

(1 ) صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالک کی روایت سے نقل کیا ہے کہ:«أَنَّ أَهْلَ مَكَّةَ سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُرِيَهُمْ آيَةً، فَأَرَاهُمُ القَمَرَ شِقَّتَيْنِ، حَتَّى رَأَوْا حِرَاءً بَيْنَهُمَا» (بخاری ومسلم)
 یعنی اہل مکہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ اپنی نبوت کے لئے کوئی نشانی (معجزہ) دکھلائیں ، تو اللہ تعالیٰ نے ان کو چاند کے دو ٹکڑے کر کے دکھلا دیا ، یہاں تک کہ انہوں نے جبل حراء کو دونوں ٹکڑوں کے درمیان دیکھا۔

(2) صحیح بخاری و مسلم اور مسند احمد میں حضرت عبداللہ ابن مسعود سے روایت ہے : «انْشَقَّ الْقَمَرُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شِقَّتَيْنِ، حَتَّى نَظَرُوا إِلَيْهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  اشْهَدُوا».
 رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ مبارک میں چاند شق ہوا اور دو ٹکڑے ہو گئے جس کو سب نے صاف طور سے دیکھا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں سے فرمایا کہ دیکھو اور شہادت دو۔
اور ابن جر یر نے بھی اپنی سند سے اس حدیث کو نقل کیا ہے ، اس میں یہ بھی مذکور ہے کہ«کنا مع رسول اللہ (صلی اللہ علیه وآله وسلم) بمنی فانشق القمر فاخذت فرقة خلف الجبل فقال رسول اللہ (صلی اللہ علیه وآله وسلم) اشھدوا اشھدوا»(عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ ہم منیٰ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے ، اچانک چاند کے دو ٹکڑے ہوگئے ، اور ایک ٹکڑا پہاڑ کے پیچھے چلا گیا ، تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ گواہی دو ، گواہی دو)۔

(3) حضرت عبداللہ بن مسعود ہی کی روایت سے ابو داؤد طیالسی نے اور بیہقی نے یہ بھی نقل کیا ہے :« انْشَقَّ الْقَمَرُ بِمَكَّةَ حَتَّى صَارَ فِرْقَتَيْنِ، فَقَالَ كُفَّارُ قُرَيْشٍ أَهْلُ مَكَّةَ: هَذَا سِحْرٌ سَحَرَكُمْ بِهِ ابْنُ أَبِي كَبْشَة، انْظُرُوا السُّفَّارَ، فَإِنْ كَانُوا رَأَوْا مَا رَأَيْتُمْ فَقَدْ صَدَقَ، وَإِنْ كَانُوا لَمْ يَرَوْا مِثْلَ مَا رَأَيْتُمْ فَهُوَ سِحْرٌ سَحَرَكُمْ بِهِ. قَالَ: فَسُئِلَ السُّفَّارُ، قَالَ: وَقَدِمُوا مِنْ كُلِّ وُجْهَةٍ، فَقَالُوا: رَأَيْنَاهُ»(ابن کثیر)

 مکہ مکرمہ (کے قیام کے زمانہ) میں چاند شق ہو کر دو ٹکڑے ہوگیا ، کفار قریش کہنے لگے کہ یہ جادو ہے ابن ابی کبشہ (یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے تم پر جادو کردیا ہے ، اس لیے تم انتظار کرو باہر سے آنے والے مسافروں کا ، اگر انہوں نے بھی یہ دو ٹکڑے چاند کے دیکھے ہیں تو انہوں نے سچ کہا ہے اور اگر باہر کے لوگوں نے ایسا نہیں دیکھا تو پھر یہ بیشک جادو ہی ہوگا، پھر باہر سے آنے والے مسافروں سے تحقیق کی جو ہر طرف سے آئے تھے ، سب نے اعتراف کیا کہ ہم نے بھی یہ دو ٹکڑے دیکھے ہیں ۔

شق القمر کے واقعہ پر کچھ شبہات اور جواب :

اس پر ایک شبہتو یونانی فلسفہ کے اصول کی بنا پر کیا گیا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آسمان اور سیارات میں فرق اور التیام (یعنی شق ہونا اور جڑنا ) ممکن نہیں ، مگر یہ محض ان کا دعویٰ ہے اس پر جتنے دلائل پیش کئے گئے ہیں وہ سب لچر اور بےبنیاد ہیں ، ان کا لغو و باطل ہونا متکلمین اسلام نے بہت واضح کردیا ہے ، اور آج تک کسی عقلی دلیل سے شق قمر کا محال اور ناممکن ہونا ثابت نہیں ہو سکا ، ہاں ناواقف عوام ہر مستبعد چیز کو ناممکن کہنے لگتے ہیں ، مگر یہ ظاہر ہے کہ معجزہ تو نام ہی اس فعل کا ہے جو عام عادت کے خلاف اور عام لوگوں کی قدرت سے خارج حیرت انگیز و مستبعد ہو، ورنہ معمولی کام جو ہر وقت ہو سکے اسے کون معجزہ کہے گا ؟۔
دوسرا عامیانہ شبہ یہ کیا جاتا ہے کہ اگر ایسا عظیم الشان واقعہ پیش آیا ہوتا تو پوری دنیا کی تاریخوں میں اس کا ذکر ہوتا، مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ واقعہ مکہ معظمہ میں رات کے وقت پیش آیا ہے ، اس وقت بہت سے ممالک میں تو دن ہوگا وہاں اس واقعہ کے نمایاں اور ظاہر ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں ہوتا اور بعض ممالک میں نصف شب اور آخر شب میں ہوگا، جس وقت عام دنیا سوتی ہے اور جاگنے والے بھی تو ہر وقت چاند کو نہیں تکتے رہتے ، زمین پر پھیلی ہوئی چاندنی میں اس کے دو ٹکڑے ہونے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا جس کی وجہ سے کسی کو اس طرف توجہ ہوتی، پھر یہ تھوڑی دیر کا قصہ تھا، روز مرہ دیکھا جاتا ہے کہ کسی ملک میں چاند گرہن ہوتا ہے ، اور آج کل تو پہلے سے اس کے اعلانات بھی ہو جاتے ہیں ، اس کے باوجود ہزاروں لاکھوں آدمی اس سے بالکل بےخبر رہتے ہیں ، ان کو کچھ پتہ نہیں چلتا، تو کیا اس کی یہ دلیل بنائی جا سکتی ہے کہ چاند گرہن ہوا ہی نہیں، اس لئے دنیا کی عام تاریخوں میں مذکور نہ ہونے سے اس واقعہ کی تکذیب نہیں ہو سکتی ، اس کے علاوہ ہندوستان کی مشہور و مستند ’’تاریخ فرشتہ‘‘ میں اس کا ذکر بھی موجود ہے کہ ہندوستان میں مہاراجہ مالیبار نے یہ واقعہ بچشم خود دیکھا اور اپنے روزنامچہ میں لکھوایا اور یہی واقعہ ان کے مسلمان ہونے کا سبب بنا ، اور اوپر ابوداؤ و طیالسی اور بیہقی کی روایات سے بھی یہ ثابت ہو چکا ہے کہ خود مشرکین مکہ نے بھی باہر کے لوگوں سے اس کی تحقیق کی تھی اور مختلف اطراف کے آنے والوں نے یہ واقعہ دیکھنے کی تصدیق کی تھی ، واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔‘‘

(معارف القرآن ، سورۃ القمر،(8/ 225 تا 227)،ط/مکتبہ معارف القرآن کراچی،1429ھ)

کیا چاند حضور علیہ السلام کےہاتھ کے اشارے سے دو ٹکڑے ہوا ؟ 

مذکورہ تفصیل سے چاند کے دو ٹکڑے ہونے کی بات تو واضح ہے ، البتہ اس میں اتنی بات جاننا ضروری ہے کہ یہ جو  مشہور ہے کہ چاند کے دو ٹکڑے ہونے کی بات حضور علیہ السلام کے ہاتھ کے اشارہ سے ٹکڑے ہوا، کافی  تلاش کے مطابق کسی روایت سے اس کا ثبوت نہیں ملا  ،اور      بعض اہل علم حضرات نے اس بات کی صراحت کے ساتھ تردید فرمائی ہے کہ چاندکے دوٹکڑے  ہونے کو حضور علیہ السلام کے اشارے سے جوڑنا درست نہیں هے،  اور یہ کسی  بھی صحیح روایت سے ثابت نہیں ہے۔

  چنانچہ علامه  تُّورپِشْتِي  رحمہ اللہ (المتوفى: 661 ھ) فرماتے ہیں : 

"فإن قيل: ففي بعض طرق هذا الحديث. (فأشار إلى القمر)، قلنا: لم نجد ذلك في رواية يعتد بها، وإنما هو شيء ذكره أصحاب التفاسير من غير تثبت."

(الميسر في شرح مصابيح السنة، باب الاستعاذة، (2/ 581)، ط/ مكتبة نزار مصطفى الباز)

علامه آلوسي رحمه الله (المتوفى: 1270ھـ) فرماتے ہیں : 

"وقد شاع أن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم أشار إلى القمر بسبابته الشريفة فانشق، ولم أره في خبر صحيح، والله تعالى أعلم."

(روح المعاني، سورة القمر (14/ 75)، ط/ دار الكتب العلمية - بيروت)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144407101396

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں