بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

حضور کا تلاوت میں یومیہ معمول کیا تھا؟/ حضور کا اندازِ تلاوت کیا تھا؟


سوال

مندرجہ ذیل سوالات کے تفصیلی جوابات  عنایت فرمائیں:

۱۔نبی  اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تلاوتِ قرآن کے بارے میں کیا معمول تھا؟ یعنی روزانہ کے اعتبار سے نبی اکرم صلی اللہ  علیہ وسلم کتنی تلاوت فرماتے تھے؟

۲۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کس انداز سے تلاوت فرماتے تھے؟

جواب

۱۔ "سنن أبي داود"، "سنن ابن ماجه"، "مسند أحمد"ودیگر کتبِ حدیث  میں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم    کے یومیہ معمولِ تلاوت سے متعلق ایک روایت مذکور  ہے۔"سنن ابن ماجه"کی روایت کے الفاظ درج ذیل ہیں:

"حدّثنا أبو بكر بنُ أبِيْ شيبة، حدّثنا أبو خالد الأحمرُ عنْ عبدِ الله بنِ عبدِ الرحمن بنِ يعلى الطائفِيِّ عنْ عثمان بنِ عبدِ الله بنِ أوسٍ عنْ جدِّه أوس بنِ حذيفة -رضي الله عنه- قال: قدِمنا على رسولِ اللهِ صلّى الله عليه وسلّم في وفدٍ ثقيفٍ، فنزّلُوا الأحْلافَ على المغيرة بنِ شعبة -رضي الله عنه-، وأنزلَ رسولُ الله صلّى الله عليه وسلّم بنِيْ مالكٍ في قُبّةٍ له، فكان يأتِيْنَا كُلَّ ليلةٍ بعدَ العشاءِ، فيُحدِّثُنا قائماً على رِجْلَيْهِ حتّى يُراوِحُ بين رِجْلَيْهِ، وأكثرُ مَا يُحدِّثُنا مَا لَقِي مِنْ قومِه مِنْ قريشٍ، ويقولُ: ولَا سَواءَ، كُنّا مُسْتَضْعَفِيْنَ مُسْتَذِلِّيْنَ، فلمّا خرجْنا إلى المدينةِ كانتْ سِجالُ الحرب بَيْنَنا وبَينهُم، نُدالُ عليهم ويُدالُون علينا، فلّما كان ذاتَ ليلةٍ أبطأَ عنِ الوقتِ الّذِيْ كانَ يأتِيْنا فيه، فقلتُ: يَا رسولَ اللهِ، لَقَد أبطأتَ علينا اللّيلة، قال: إنّه طرأَ علَيَّ حِزْبِيْ مِنَ القرآنِ، فكرِهتُ أنْ أخرُجُ حتّى أُتِمَّه.  قال أوسٌ-رضي الله عنه-: فسألتُ أصحابَ رسولِ الله صلى الله عليه وسلم: كيف تُحزِّبُون القرآنَ؟ قالُوا: ثَلاثٌ، وخَمْسٌ، وسَبْعٌ، وتِسْعٌ، وإِحدَى عشرةَ، وثلاثَ عشرةَ، وحِزْبُ المُفصّل".

(سنن ابن ماجه، أبواب إقامة الصلوات والسنة فيها، باب ما جاء في كم يستحب يختم القرآن،  ج:2، ص:369-370، رقم:1345، ط: دار الرسالة العالمية)

ترجمہ:

’’(حضرت) اوس بن  حذیفہ رضی اللہ عنہ   فرماتے ہیں: ہم وفدِ ثقیف   میں   رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، (ثقیف  کا) قبیلہ اَحلاف (حضرت) مغیرہ  بن شعبہ رضی اللہ عنہ  کا مہمان بنا، اورقبیلہ بنو مالك كو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے  اپنے خیمہ میں  ٹھہرایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ہررات کو عشاء کے بعد ہمارے پاس  تشریف لاتے تھے اور ہم سے کھڑے کھڑے  باتیں کرتے تھے، یہاں تک کہ آپ بار بار پاؤں بدلنے  لگتے تھے (یعنی زیادہ دیر  کھڑے رہنے کی وجہ سے تھک جاتے تھے تو  راحت حاصل کرنے کے لیے کبھی ایک پاؤں پر سہارا لیتے  تھے اور کبھی  دوسرے پاؤں پر سہارا لیتے تھے)، زیادہ تر آپ اُن تکالیف کا ذکر کرتے تھے جو آپ کو اپنی قوم قریش سے پہنچی تھیں، آپ فرماتے تھے:  (ہم اور کفارِ قریش  ہجرت سے پہلے مکہ  کے قیام میں قوت وطاقت میں ) برابر  نہیں تھے، (بلکہ) ہم لوگ  ضعیف اور کمزور تھے،  پھر جب ہم ہجرت  کرکے مدینہ  آئے (تو ہمیں قوت وشوکت حاصل ہو گئی)  تو لڑائی (اور مقابلہ) کے ڈول  ہمارے اور اُن کے درمیان مشترک ہوگئے ،  کبھی ڈول ڈال کر پانی  کھینچنے کی باری  ہماری ہوتی ہے اور کبھی یہ باری اُن کی ہوتی ہے(یعنی لڑائی اور مقابلہ کے وقت  کبھی ہم غالب آتے  ہیں اور کبھی وہ غالب آجاتے ہیں)۔ ایک رات آپ     نے ہمارے پاس تشریف لانے میں  معمول کے وقت سے  دیر کردی ،(جب آپ تشریف لائے تو) میں نے  عرض کیا: آج رات  آپ کی   تاخیر سے  تشریف آوری ہوئی؟! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرا  قرآنِ کریم کا’’حِزْب( تلاوت کا مقرر کردہ یومیہ معمول)‘‘ رہ گیا تھا تو  اُسے مکمل  کرنے سے پہلے مجھے (گھر سے ) نکلنا  اچھا نہیں لگا(اس لیے  اُسے مکمل کرنے میں مجھے دیر ہوگئی)۔ (حضرت) اوس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ (کرام رضی اللہ عنہم) سے پوچھا: آپ حضرات قرآنِ کریم کو(تلاوت کے لیے) کتنے حصوں میں تقسیم کرتے تھے؟ تو اُنہوں نے فرمایا: (پہلے دن) تین(سورتیں)،(دوسرے دن)پانچ (سورتیں)، (تیسرے دن)سات(سورتیں، (چوتھے دن )نو(سورتیں)،(پانچویں دن) گیارہ(سورتیں) ،(چھٹے دن) تیرہ(سورتیں) اور(ساتویں دن) حِزْبِ مفصّل پورا(یعنی سورہ قاف سے آخرِ قرآنِ کریم  تک)‘‘۔

علامہ محمود سبکی رحمہ اللہ"المنهل العذب المورود شرح سنن الإمام أبي داود"میں مذکورہ اَحزابِ سبعہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"والمرادُ أنّهم كانُوا يجعلُون القرآنَ سبعةَ أحزابٍ: الأوّلُ: ثلاثُ سُورٍ: البقرةُ وآلُ عمرانَ والنّساءُ، ولَمْ تَعُدِ الفاتحةَ لِقَصْرِها, والثّاني: خمسٌ مِنَ المائدةِ إلى التوبةِ، والثّالثُ: سبعٌ مِنْ يونسُ لِغايةِ النّحلِ، والرّابعُ: تِسعٌ مِنَ الإِسراءِ لِغايةِ الفرقانَ، والخامسُ: إِحدَى عشرةَ مِنَ الشُّعراءِ لِغايةِ يس، والسّادسُ:ثلاثَ عشرةَ مِنَ الصّافّاتِ لِغايةِ الحُجُرات، والسّابعُ:حِزْبُ المُفصّل مِنْ سُورةِ ق إلى آخرِ القرآن، وكانُوا يقرءُون في كُلِّ يومٍ حِزْبًا".

(المنهل العذب المورود، 8/10، ط: مطبعة االاستقامة - القاهرة)

ترجمہ:

’’ مراد یہ ہے کہ وہ  حضرات قرآنِ کریم کو سات اَحزاب میں تقسیم کرتے تھے:پہلا حِزْب:سورہ بقرہ، آلِ عمران اور سورہ نساء، سورہ فاتحہ کو مختصر ہونے  کی وجہ سے شمار نہیں کیا، دوسرا حِزْب:سورہ مائدہ سے سورہ توبہ تک کی پانچ سورتیں،تیسرا حِزْب: سورہ یونس سے سورہ نحل کے آخر تک سات سورتیں، چوتھا حِزْب: سورہ اِسراء سے سورہ فرقان کے آخر تک نو سورتیں، پانچواں حِزْب: سورہ شعراء سے سورہ یسین کے آخر تک گیارہ سورتیں، چھٹا حِزْب: سورہ صافات سے سورہ حجرات کے آخر تک  تیرہ سورتیں،اور ساتواں حِزْب:سورہ قاف سے آخرِ قرآنِ کریم تک حِزْبِ مفصل ، وہ حضرات  روزانہ ایک حِزْب پڑھا کرتے تھے‘‘۔

حافظ ابن ِ کثیر رحمہ اللہ"فضائل القرآن"میں مذکورہ روایت  ذکر کرنے کے بعد اس کا حکم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"رَواهُ أبو داود وابنُ ماجه مِنْ حديثِ عبدِ اللهِ بنِ عبدِ الرحمنِ بنِ يَعْلَى الطائفىِّ بِه. وهَذا إسنادٌ حسنٌ".

(فضائل القرآن، تاليف القرآن، 1/148، ط: مكتبة ابن تيمية)

ترجمہ:

’’(امام) ابوداود اور(امام) ابنِ ماجہ (رحمہما اللہ) نے اسے (حضرت) عبد اللہ بن عبد الرحمن بن یعلي الطائفی (رحمہ اللہ) سے روایت کیا ہے، اور اس کی سند حسن ہے‘‘۔

 مذکورہ بالا روایت   میں ’’تحزیب(یعنی قرآنِ کریم کو تلاوت کے لیے  سات حصوں میں تقسیم کرنے )‘‘ کی نسبت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف  کی گئی  ہے، "المعجم الكبير"، "مصنف ابن أبي شيبة"، "شرح مشكل  الآُثار" کی روایت میں  ’’تحزیب(یعنی قرآنِ کریم کو  تلاوت کے لیےسات حصوں میں تقسیم کرنے )‘‘ کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مذکور ہے۔"المعجم الكبير"کی روایت  کے  الفاظ درج ذیل ہیں:

" ... فسألنا أصحابَ رسولِ اللهِ -صلّى الله عليه وسلّم-: كيفَ كانَ رسولُ اللهِ -صلّى الله عليه وسلّم- يُحزِّبُ القرآنَ؟ فقالُوا: كانَ يُحزِّبُه ثلاثاً، وخمساً، وسبعاً، وتِسعاً، وإِحدَى عشرةَ، وثلاثَ عشرةَ، وحِزْبَ المُفصّل".

(المعجم الكبير، باب الألف، باب في فضل قرا 1/220، رقم:599، ط: مكتبة ابن تيمية- القاهرة)

ترجمہ:

’’۔۔۔ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ (کرام رضی اللہ عنہم) سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   قرآنِ کریم کو(تلاوت کے لیے) کس طرح تقسیم فرماتے تھے؟ تو اُنہوں نے فرمایا:  آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآنِ کریم کو (پہلے دن) تین (سورتوں)، (دوسرے دن)پانچ (سورتوں)،   (تیسرے دن) سات سورتوں، (چوتھے دن )نو(سورتوں)،(پانچویں دن) گیارہ(سورتوں) ،(چھٹے دن) تیرہ(سورتوں) اور(ساتویں دن) حِزْبِ مفصّل (یعنی سورہ قاف سے آخرِ قرآنِ کریم  تک) میں تقسیم فرماتے  تھے‘‘۔

 حافظ عراقی رحمہ اللہ"المغني عن حمل الأسفار في الأسفار، في تخريج ما في الإحياء من الأخبار"میں مذکورہ روایت کا حکم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"إسنادُه حسنٌ".

(المغني عن حمل الأسفار، كتاب آداب تلاوة القرآن، الباب الثاني في ظاهر آداب التلاوة، 1/327، ط: دار ابن حزم - بيروت)

ترجمہ:

’’اس روایت کی سند حسن ہے‘‘۔

نیز  کتبِ سِیَر میں سے"أخلاق النبي وآدابه لأبي الشيخ الأصبهاني"، "الأنوار في شمائل النبي المختار للبغوي"، "الشمائل الشريفة للسيوطي"ودیگر کتب میں مذکور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ  کی ایک روایت   سے معلوم  ہوتا ہے کہ نبی کریم  تین  دن سے کم میں  قرآنِ کریم ختم نہیں فرماتے  تھے۔ "أخلاق النبي وآدابه لأبي الشيخ الأصبهاني"کی روایت کے الفاظ درج ذیل ہیں:

"ذكرٌ قراءتِه القرآنَ ومدّةُ ختمِه -صلّى الله عليه وسلّم-:

حدّثنا عمر بنُ الحسن الحلبِيُّ، نا محمّد بنُ قدامة المِصِّيْصِيُّ، نا يوسف بنُ الغَرَقِ، عنِ الطِّيْبِ عنْ عمرةَ عنْ عائشةَ -رضي الله عنها-: أنّ رسولَ الله -صلّى الله عليه وسلّم- كانَ لَا يقرأُ القرآنَ في أقلَّ مِنْ ثلاثٍ".

(أخلاق النبي وآدابه، 4/122، رقم:820، ط: دار المسلم للنشر والتوزيع)

ترجمہ:

’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ کی تلاوتِ قرآنِ اور ختمِ قرآن کی مدت کاتذکرہ:

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین دن سے کم   میں قرآنِ کریم   نہیں پڑھتے تھے‘‘۔

حافظ سیوطی رحمہ اللہ "الشمائل الشريفة" میں مذکورہ روایت کی تشریح میں لکھتے ہیں:

"أيْ: لَا يقرأُه كاملاً في أقلَّ مِنْ ثلاثةِ أيامٍ؛ لِأنّها أقلُّ مدّةٍ يُمكِنُ فيها تدبّرُه وترتيلُه".

(الشمائل الشريفة، 1/253، رقم:438، ط: دار طائر العلم للنشر والتوزيع)

ترجمہ:

’’یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکمل قرآنِ کریم تین دن سے کم میں  نہیں پڑھتے تھے، اس لیے  کہ یہ کم سے کم مدت ہے جس میں  غور وتدبر  کے ساتھ   اور  ٹھہر  ٹھہر کر قرآنِ کریم پڑھنا  ممکن ہے‘‘۔

خلاصہ کلام:

مذکورہ   تفصیل  سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا  عام معمول یہ تھا کہ آپ  قرآنِ کریم کو  سات اَحزاب میں تقسیم فرماتے تھے ، اور روزانہ ایک ’’حِزْب‘‘ پڑھا کر تے تے،(یعنی پہلا حِزْب:سورہ بقرہ، آلِ عمران اور سورہ نساء، سورہ فاتحہ کو مختصر ہونے کی وجہ سے شمار نہیں کیا، دوسرا حِزْب:سورہ مائدہ سے سورہ توبہ تک کی پانچ سورتیں،تیسرا حِزْب: سورہ یونس سے سورہ نحل کے آخر تک سات سورتیں، چوتھا حِزْب: سورہ اِسراء سے سورہ فرقان کے آخر تک نو سورتیں، پانچواں حِزْب: سورہ شعراء سے سورہ  یسین کے آخر تک گیارہ سورتیں، چھٹا حِزْب: سورہ صافات سے سورہ حجرات کے آخر تک  تیرہ سورتیں،اور ساتواں حِزْب:سورہ قاف سے آخرِ قرآنِ کریم تک حِزْبِ مفصل)،    اور  کبھی اس سے  جلدی پڑھا کرتے  تھے تو تین دن  میں قرآنِ کریم ختم فرمایا کرتے تھے،  تین دن سے کم میں ختم نہیں فرمایا کرتے تھے، تاہم اگر کسی  کو قرآنِ کریم   سے زیادہ شغف ہو اور اس کی تلاوت میں شوق ورغبت ہو تو وہ تین دن سے کم میں بھی قرآنِ کریم ختم کرسکتا ہے،  اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

۲۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اندازِ تلاوت سے متعلق  مختلف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مختلف اوصاف منقول ہیں، ذیل میں اس سلسلے کی چند روایات ذکر کی جاتی ہیں:

۱لف۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ایک ایک حرف واضح طور پر  ادا فرماتے تھے :

"حدّثنا قتيبة بنُ سعيدٍ، حدّثنا الليثُ عنْ أبِيْ مُلَيْكَةَ عنْ يعلى بنِ مَمْلَكٍ أنّه سأل أُمَّ سلمةَ - رضي الله عنها- عنْ قراءةِ رسولِ اللهِ -صلّى الله عليه وسلّم-، فإذا هي تنعتُ  قراءةً مفسّرةً حرفاًَ حرفاً".

ترجمہ:

’’(حضرت) یعلی بن مملک (رحمہ اللہ) نے (حضرت) اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی  اللہ علیہ وسلم کی قراءت  کے  بارے میں پوچھا ، تو وہ  ایک ایک حرف واضح  طور پر پڑھنے کو بیان کر نے لگیں(یعنی آپ ایک ایک حرف  واضح طور پر ادا فرماتے تھے)‘‘۔

ب۔ ٹھہر ٹھہر کر تلاوت فرماتے تھے:

"حدّثنا علِيُّ بنُ حُجْرٍ، حدّثنا يحيى بن سعيد الأمويُّ عنْ ابنِ جُريجٍ عنْ ابنِ أبِيْ مُلَيْكَةَ عنْ أُمِّ سلمةَ -رضي الله عنها- قالتْ: كانَ النبيُّ -صلّى الله عليه وسلّم- يقطعُ  قِراءتَه، يقولُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، ثُمّ يقِفُ، ثُمّ يقولُ: الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، ثُمّ يقِفُ، وكانَ يقرأُ: مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ".

ترجمہ:

’’(حضرت) اُمِّ سلمہ  رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  رُُک رُک کر تلاوت کیا کرتے تھے،  الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ پڑھتے  تھے، پھر رُک جاتےتھے، پھر الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ پڑھتے تھے، پھر رُک جاتے تھے، پھر مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ پڑھتے تھے‘‘۔

ج۔حروفِ مدہ  کو کھینچ کر ادا فرماتے تھے:

"حدّثنا محمّد بنُ بشّارٍ، حدّثنا وهب بنُ جريرِ بنِ حازمٍ، حدّثنا أبِيْ عنْ قتادةَ قال: قلتُ لِأنس بنِ مالكٍ: كيفَ كانتْ قراءةُ رسولِ اللهِ -صلّى الله عليه وسلّم-؟ قال: مَدّاً".

ترجمہ:

’’(حضرت) قتادہ (رحمہ اللہ) نے (حضرت) انس بن مالک(  رضی اللہ عنہ  )سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت کیسی تھی؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:  (مد والے حروف  کو) کھینچ  کر پڑھتے تھے‘‘۔

د۔کبھی  جہراً اور  کبھی  سراً تلاوت   فرماتے تھے:

"حدّثنا قتيبةُ، حدّثنا الليثُ عنْ مُعاويةَ بنُ صالحٍ عنْ عبدِ اللهِ بنِ أبِيْ قيسٍ قال: سألتُ عائِشةَ -رضي الله عنها- عنْ قِراءةِ النبيِّ -صلّى الله عليه وسلّم- أ كانَ يُسِرُّ بِالقراءةِ أمْ يَجهرُ؟ قالتْ: كلُّ ذلكَ قدْ كانَ يفعلُ، رُبَّما أسرَّ ورُبَّما جهرَ، فقلتُ: الحمدُ لِلهِ الذِّيْ جعلَ في الأَمرِ سَعَةًَ".

ترجمہ:

’’(حضرت) عبد اللہ بن ابوقیس (رحمہ اللہ ) فرماتے ہیں: میں نے (حضرت ) عائشہ رضی اللہ عنہا  سے  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت کے بارے میں پوچھا کہ آپ سراً قراءت فرماتے تھے یا جہراً؟ انہوں نے فر مایا: ہرطرح سے پڑھتے تھے، کبھی سراً پڑھتے تھے کبھی جہراً، (یہ گنجائش  پاکر) میں نے کہا: تمام تعریفیں  اُس  اللہ کے لیے ہے جس نے معاملہ میں گنجائش رکھی‘‘۔

"حدّثنا محمود بنُ غيلانَ، حدّثنا وكيعٌ، حدّثنا مِسْعَرٌ عنْ أبِي العلاءِ العبدِيِّ عنْ يحيى بنِ جَعْدَةَ عنْ أُمِّ هانِىءٍ -رضي الله عنها- قالتْ: كنتُ أسمعُ قِراءةَ النبِيِّ -صلّى الله عليه وسلّم- وأنَا على عَرِيْشِيْ".

ترجمہ:

’’(حضرت) اُمِّ ہانی رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت(کی آواز)  سنا کرتی  تھی حالاں کہ میں اپنے چھپر(گھر) میں ہوتی تھی‘‘۔

"حدّثنا عبدُ اللهِ بنُ عبدِ الرحمنِ. حدّثنا يحيى بنُ حسّانَ، حدّثنا عبدُ الرحمنِ بنِ أبِيْ الزِّنادِ، عنْ عمرو بنِ أبِيْ عمروٍ عن عِكْرِمةَ عنْ ابنِ عبّاسٍ -رضي الله عنهما- قال: كانتْ قِراءةُ النبِيِّ -صلّى الله عليه وسلّم- رُبّما يَسْمعُها مَنْ في الحُجْرةِ، وهُو في البيتِ".

ترجمہ:

’’(حضرت) ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:  کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت کو وہ شخص سن لیتا تھا جو اپنے کمرے میں ہوتا  تھا اور آپ اپنے گھر میں (تلاوت کر رہے )ہوتے تھے‘‘۔

ہ۔تلاوت کے دوران عام  طور   آواز میں ترجیع نہ ہوتی  تھی:

"حدّثنا محمود بنُ غيلانَ، حدّثنا أبو داودَ، حدّثنا شعبةُ عنْ مُعاويةَ بنِ قُرَّةَ قال: سمعتُ عبدَ اللهِ بنَ مُغفّلٍ -رضي الله عنه- يقولُ: رأيتُ النبِيَّ -صلّى الله عليه وسلّم- على ناقتٍه يومَ الفتحِ وهُو يقرأُ:"إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا (1) لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ"،  قال: فقرأَ ورجّعَ، قال: وقال مُعاوية بنُ قُرّةَ: لَوْ لَا أنْ يجتمعَ النّاسُ علِيَّ لَأخذتُ لكم في ذلكَ الصّوتِ، أوْ قالَ: اللّحنِ".

ترجمہ:

’’(حضرت) عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فتحِ مکہ کے دن اپنی اُونٹنی پر دیکھا   ، آپ   "إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا (1) لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ"کی تلاوت فرمارہے تٗھے،  پس آپ نے پڑھا اور  ترجیع فرمائی(یعنی  حلق میں  آواز گھمائی۔ اونٹنی چوں کہ چل رہی تھی، اس لیے آواز حلق میں گھوم رہی تھی ، ورنہ آپ  حلق میں آواز نہیں  گھماتے تھے، جیساکہ آئندہ حدیث سے معلوم ہوگا۔تحفۃ  الالمعی، ج:۸،ص:۶۱۵، ط: زمزم پبلشرز)  ۔(امام) شعبہ (رحمہ اللہ) کہتے ہیں کہ (حضرت) معاویہ بن قرہ (رحمہ اللہ نے ہمیں یہ حدیث بیان کرنے کے بعد )کہا:  اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا  کہ لوگ میرے پاس اکٹھا ہوجائیں گے تو میں تمہارے لیے  اُس آواز   میں(یا یوں فرمایا: اُس لہجہ میں)  پڑھنا شروع کردیتا‘‘۔

"حدّثنا قُتيبة بنُ سعيدٍ، حدّثنا نوح بنُ قيسٍ الحُدَّانِيُّ عنْ حُسام بنِ مِصَكٍ عنْ قتادةَ قال: مَا بعثَ الله نبيّاً إِلّا حسنَ الوجهِ، حسنَ الصّوتِ، وكان نبِيُّكم -صلّى الله عليه وسلّم- حسنَ الوجهِ، حسنَ الصّوتِ، وكانَ لَا يُرجِّعُ".

ترجمہ:

’’(حضرت) قتادہ (رحمہ اللہ) فرماتے ہیں:   اللہ تعالی نے ہر نبی کو خوب صورت  اور خوش  آواز  کے ساتھ بھیجا ہے، تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی خوب صورت اور خوش آواز تھے، آپ (تلاوت کرتے ہوئے) ترجیع نہیں فرماتے تھے(یعنی حلق  میں آواز نہیں گھماتے تھے۔پچھلی حدیث میں   حلق میں آواز گھمانے کا جو ذکر ہے  وہ عارضی تھی،  یعنی چوں کہ اُونٹنی چل رہی تھی اس لیے حلق  میں آواز گھوم رہی تھی۔تحفۃ  الالمعی، ج:۸،ص:۶۱۵، ط: زمزم پبلشرز)‘‘۔

(الشمائل المحمدية للترمذي، باب ماجاء في قراءة رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، ج:1، ص:181-184، رقم:297-304، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

حافظ ابنِ قیم الجوزیہ رحمہ اللہ"زاد المعاد في هدي خير العباد"میں لکھتے ہیں:

"وكانتْ قراءتُه ترتيلاً لَا هذّاً ولا عجلةً، بَلْ قراءةً مفسّرةً حرفاً حرفاً، وكان يقطِّعُ قراءتَه آيةً آيةً، وكان يمدُّ عندَ حروفِ المدِّ، فيمدُّ (الرّحمن) ويمدُّ (الرّحيم)، وكانَ يستعيذُ بِاللهِ مِنَ الشّيطانِ الرّجيمِ في أوّلِ قراءتِه فيقولُ:"أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ"، ورُبّما كان يقولُ:"اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ"...  وكانَ -صلّى الله عليه وسلّم- يتغنَّى بِه، ويُرجِّعُ صوتَه بِه أحياناً كما رجّع يومَ الفتحِ في قراءتِه:"إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا[الفتح: 1]".

(زاد المعاد، فصل في هديه - صلى الله عليه وسلم- في قراءة القرآن ... إلخ، ج:1، ص:463-464، ط: مؤسسة الرسالة)

ترجمہ:

’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی قراءت ٹھہر ٹھہر کر ہوتی تھی ،نہ  ہی تیز اور نہ ہی جلدی سے ہوتی تھی، بلکہ  ایک ایک حرف کی واضح  طور پر قراءت ہوتی تھی، ایک ایک آیت  الگ الگ کرکے  پڑھتے تھے،   حروفِ مدہ پر مد کرتے تھے، چنانچہ  ’’الرحمن ‘‘  پر مد کرتے تھے اور( اسی طرح) ’’الرحیم‘‘ پر (بھی)  مد کرتے تھے،  قراءت  کے شروع میں  اللہ تعالی سے شیطان مردود  کی پناہ مانگتے تھے، چنانچہ (قراءت کے شروع میں ) پڑھتے تھے: "أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ"،کبھی (بجائے اس کے) یوں پڑھتے  تھے:"اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ"۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  قرآنِ کریم خوش الحانی سے پڑھتے تھے، اور کبھی کبھار اس میں ترجیع بھی فرماتے تھے، جیساکہ فتحِ مکہ کے دن:إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا(الفتح :۱)  کی قراءت میں آپ نے ترجیع فرمائی تھی‘‘۔

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144601101246

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں