بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

رسول اللہ ﷺ کی تاریخ ولادت کے بارے میں راجح قول، جشن میلاد النبی ﷺ منانے کا حکم


سوال

 حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی تاریخ  صحیح قول کے مطابق کون سی ہے؟ اور جشنِ عیلاد النبی منانے کا کیا حکم ہے؟

جواب

(۱) سردارِ دوجہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش واقعۂ فیل کے پچاس یا پچپن روزکے بعد بتاریخ 8 ربیع الاول بروز پیر مطابق ماہِ اپریل 570ء مکہ مکرمہ میں صبح صادق کے وقت ہوئی۔ ولادت باسعادت کی تاریخ میں مشہور یہ ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم 12 ربیع الاول کو پیدا ہوئے، لیکن جمہورمحدثین اور مؤرخین کے نزدیک راجح اور مختار قول یہ ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم 8 ربیع الاول کوپیداہوئے۔ (سیرت المصطفیٰ 149،ج،5،ط:مکتبہ عثمانیہ لاہور، ناقلاعن زرقانی شرح مواہب اللدنیہ)

(۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ مبارکہ کا ذکر یا  آپ کے اوصاف ومحاسن اور عبادات و معاملات کا ذکرحتی  کہ جس چیز کی ادنیٰ نسبت بھی نبی کریم ﷺ کی جانب ہو اس کا ذکر  یقیناً فعلِ مستحسن اور باعثِ اجر و ثواب ہے، آپ ﷺ کی دنیا میں آمد دنیا کے لیے ایک نعمت ہے، اندھیروں میں ایک روشنی ہے، ایک مسلمان کا  خوش ہونا فطری امر ہے، البتہ  اس پر خوش ہونے کا وہی طریقہ اختیار کرنا جائز ہے جو  محسنِ کائنات ﷺ سے ثابت ہو، یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعینِ کرام رحمہم اللہ نے اس پر عمل کیا ہو،  یہی آپ ﷺ کی آمد  کے  مقصد  کی حقیقی پیروی ہے۔  چوں کہ مروجہ میلاد کا ثبوت قرآن و حدیث اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین، تابعینِ کرام، تبع تابعین اور ائمۂ مجتہدین رحمہم اللہ میں سے کسی سے نہیں ہے، بلکہ یہ ساری چیزیں بعد کے لوگوں کی ایجاد کردہ ہیں، اور بدعات میں شامل ہیں، لہذا ان  کا ترک کرنالازم ہے۔

’’بدعت‘‘  اس عمل کو کہا جاتاہے جسے نیک کام سمجھ کر کیا جائے، اس کا التزام ہو، اس کے نہ کرنے پر نکیر ہو، اور وہ ایسا عمل ہو کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعینِ کرام اور تبع تابعین رحمہم اللہ کے زمانے میں اس عمل کی ضرورت ہونے کے باوجود وہ اس پر عمل نہ کریں، یا اس طرح عمل نہ کریں جس کیفیت کے ساتھ اِس دور میں لازم سمجھا جارہا ہے۔ 

نصوص سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بعض مرتبہ مستحب اور حدیث سے ثابت کام بھی التزام کی وجہ سے بدعت شمار کیا جاتاہے، رسول اللہ ﷺ سے فرض نماز کے بعد دائیں طرف مقتدیوں کی جانب رُخ کرنا ثابت ہے، لیکن اگر کوئی شخص اس کو لازم سمجھے تو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بقول اس نے اپنی نماز میں شیطان کا حصہ رکھ لیا، اس حدیث کی شرح میں علامہ طیبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’وفیه أن من أصر علی أمر مندوب و جعله عزمًا ولم یعمل بالرخصة فقد أصاب منه الشیطان من الإضلال، فكیف بمن أصر علی بدعة و منکر‘‘.

(شرح الطیبي علی مشكاۃ المصابیح، كتاب الصلاۃ، باب الدعاء في التشهد، الفصل الأول، (2/347) ط: إدارۃ القرآن و العلوم الإسلامیة، کراچی)

اس کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص کسی مستحب کام کو ضروری سمجھے اور رخصت پر عمل نہ کرے تو وہ شخص گم راہ ہے، جب کسی مستحب کام پر اصرار کا یہ حکم ہے تو اندازا لگائیں کہ کسی بدعت یا منکر کو ضروری سمجھنے کا کیا حال ہوگا۔

فقہاءِ کرام کی تصریح ہے کہ اگر کوئی حکم سنت اور بدعت کے درمیان متردد ہو (یعنی یہ کام سنت ہے یا بدعت) تو ترکِ سنت راجح ہوگا، بمقابلہ فعلِ بدعت کے۔ علامہ شامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’(قوله: و تركها أولی)؛ لأنه إذا تردّد الحكم بین سنة و بدعة، كان ترك السنة راجحًا على فعل البدعة‘‘.

(رد المحتار علی الدر المختار، كتاب الصلاۃ، باب مایفسد الصلاۃ و مایكرہ فیها، مطلب: إذا تردد الحكم بین سنة و بدعة، (1/642) ط: ایچ ایم سعید کراچی)

اب دیکھیے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جو ہم سے بہت سے زیادہ نیکیوں کے حریص،  ہم سے زیادہ عبادات کا شوق رکھنے  والے  اور ہم سے زیادہ آپ ﷺ کے عاشقِ صادق تھے، انہوں نے اس عمل کو اختیار نہیں کیا، جب کہ انہیں ہم سے زیادہ اس کی ضرورت تھی، اور وہ چاہتے تو یہ کرسکتے تھے، لیکن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ ﷺ سے یہ نہیں سیکھا، حال آں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضورِ اکرم ﷺ کا مزاج سمجھتے تھے، اس لیے عشق ومحبت کے باوجود انہوں نے ایسا عمل نہیں کیا جو حضور ﷺ کو ناپسند ہو، اور حقیقی محبت یہی ہے کہ جس میں محبوب کی راحت رسانی ہو، یہ کمالِ محبت نہیں کہ آدمی اپنی چاہت پوری کرکے محبوب کو تکلیف پہنچائے اور پھر اسے اپنی محبت کا تقاضا کہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نزدیک رسول اللہ ﷺ سے زیادہ کوئی محبوب نہیں تھا، لیکن وہ لوگ رسول اللہ ﷺ کو دیکھ کر کھڑے نہیں ہوتے تھے؛ اس لیے کہ وہ جانتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کو یہ پسند نہیں ہے۔ (رواہ الترمذی)

لہذا مروجہ میلاد کی مجالس کا کیوں کہ خاص کیفیات کے ساتھ التزام کیا جاتاہے، اور نہ کرنے والوں کو برا کہا جاتاہے، اس لیے ان کے بدعت ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔

رسول اللہ ﷺ کی محبت کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ آپ کے بتائے ہوئے طریقوں پر چلنے کا عزم کرلیں، یہ حقیقی محبت ہے،آدمی جس سے محبت رکھتاہے اس کی ہر چاہت کا خیال رکھتا ہے، اور اس کا ہر حکم مانتا ہے، یہ کیسی عجیب بات ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ناپسندیدہ چیزوں، نافرمانیوں اور گناہوں کا  علم ہونے کے باوجود مسلمان انہیں تو نہ چھوڑے اور رسول اللہ ﷺ سے محبت کا دعویٰ بھی کرے!! امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

تَعصي الإِلَهَ وَأَنتَ تُظهِرُ حُبَّهُ                  هَذا مَحالٌ في القِياسِ بَديعُ

لَو كانَ حُبُّكَ صادِقاً لَأَطَعتَهُ                  إِنَّ المُحِبَّ لِمَن يُحِبُّ مُطيعُ

في كُلِّ يَومٍ يَبتَديكَ بِنِعمَةٍ                    مِنهُ وَأَنتَ لِشُكرِ ذاكَ مُضيعُ

یعنی تو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی بھی کرتاہے اور اس کی محبت کا اظہار بھی کرتاہے، یہ عقلی اعتبار سے عجیب و غریب بلکہ محال ہے، اگر تم محبت میں سچے ہوتےتو ضرور اس کی اطاعت کرتے؛ اس لیے کہ محبت کرنے والا اپنے محبوب کی اطاعت کرتاہے۔ 

دن اور وقت کی تعیین کے التزام دن اور وقت کی تعیین کے التزام کے بغیر آپ ﷺ کا ذکرِ خیر کثرت سے کریں، رسول اللہ ﷺ کی سیرت کا مطالعہ کریں، کثرت سے انفرادی طور پر اخلاص کے ساتھ درود شریف پڑھیں، اس سے اللہ اور اس کے رسول ﷺ دونوں ہی خوش ہوں گے۔

اس موضوع پر مزید تفصیل کے لیے شہیدِ اسلام حضرت مولانامحمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ کی کتاب ’’اختلافِ امت ا ور صراط مستقیم، ص:86تا98‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204200019

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں