بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش /ربیع الاول میں ریلی نکالنا اور اس میں شرکت کا حکم


سوال

1۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کون سی تاریخ کو ہوئی ؟

2۔12 ربیع الاول والے دن ریلی نکالنا اور ان میں شریک ہونا کیسا ہے ؟

جواب

1-  حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے حوالے سے مؤرخین اور سیرت نگاروں  کی آراء مختلف ہیں، اور وہ 12،10،8،2 ربیع الاول کی تاریخ ہیں ،مشہور یہ ہے کہ بارہ ربیع الاول کو پیدائش ہوئی، البتہ محققین علماءِ کرام کے دو قول ہیں، 8 ربیع الاول یا 9 ربیع الاول، بعض نے ایک کو ترجیح دی ہے، بعض نے دوسرے کو۔ راجح قول کے مطابق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش 8 ربیع الاول  کو ہوئی۔

2-  اس میں شبہ نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت اور بعثت  امت محمدیہ کے لیے رحمت وسعادت کا ذریعہ ہے اوراس نعمت کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے، بلکہ مؤمن کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت اس کو نہ ہو، لیکن محبت سچی اورقابل قبول اسی وقت ہوسکتی ہے جب کہ وہ شرعی اصولوں سے نہ ٹکراتی ہو، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت واحوال، فضائل ومناقب اور حیات طیبہ کے مختلف گوشے اجاگرکرنا، اس پر  بیان وتقریر کرنا کارِ ثواب ہے، لیکن یہ اسی وقت ہے جب کہ سنت وشریعت کے مطابق ہو۔

ماہ ربیع الاول  کو خاص کرکے میلاد النبی،  سیرت مصطفی، عظمت مصطفی، شان مصطفی، ولادت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم وغیرہ جیسے ناموں سے جلسہ جلوس کا انعقادکرنا،اور اس نام سے ریلی نکالنا، جشن وتہوار منانا نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے نہ صحابہٴ کرام اور تابعین عظام سے۔حالاں کہ صحابہٴ کرام سے بڑھ کر سچا عاشق رسول اور جاں نثار کون ہوسکتا ہے، اس کے باوجود صحابہٴ کرام سے کہیں اس کا ثبوت نہیں۔ اور اس  کو امت کے اکابر  علماء نے بدعات میں شمار کیا ہے؛لہذا میلاد کے نام پر ریلی نکالنا اور اس میں شرکت کرنا شرعاً جائز نہیں ۔

تہذیب الاسماء واللغات للنووی میں ہے :

"واتفقوا على أنه ‌ولد ‌يوم ‌الاثنين من شهر ربيع الأول، واختلفوا هل هو فى اليوم الثانى أم الثامن أم العاشر أم الثانى عشر، فهذه أربعة أقوال مشهورة."

(ج:1،ص:23،دارالکتب العلمیۃ)

المواہب اللدنیہ بالمنح المحمدیہ میں ہے :

"وقيل: ‌لثمان ‌خلت ‌منه، قال الشيخ قطب الدين القسطلانى: وهو اختيار أكثر أهل الحديث، ونقل عن ابن عباس وجبير بن مطعم، وهو اختيار أكثر من له معرفة بهذا الشأن، واختاره الحميدى، وشيخه ابن حزم، وحكى القضاعى فى «عيون المعارف» إجماع أهل الزيج عليه، ورواه الزهرى عن محمد بن جبير بن مطعم، وكان عارفا بالنسب وأيام العرب، أخذ ذلك عن أبيه جبير."

(آیات ولادتہ صلی اللہ علیہ وسلم ،ج:1،ص:85،المکتبۃ التوفیقیۃ)

سیرۃ المصطفی میں ہے :

"ولادت باسعادت کی تاریخ میں مشہور قول تو یہ ہے کہ حضورِ پر نور صلی اللہ علیہ وسلم (12) ربیع الاول کو پیدا ہوئے، لیکن جمہور محدثین اور مورخین کے نزدیک راجح اور مختار قول یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم (8) ربیع الاول کو پیدا ہوئے۔"

(سیرة المصطفی : ولادت باسعادت ،ج:1،ص:52، کتب خانہ مظہری کراچی)

المدخل لابن الحجاج  میں ہے :

"ومن جملة ما أحدثوه من البدع مع اعتقادهم أن ذلك من أكبر العبادات وإظهار الشعائر ما يفعلونه في شهر ربيع الأول من مولد وقد احتوى على بدع ومحرمات جملة."

(فصل فی مولد النبی والبدعۃ المحدثۃ فیہ،ج:2،ص:2،دارالتراث)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100666

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں