بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق علم الغیب کا عقیدہ رکھنا


سوال

جو شخص بھرے  مجمع میں اپنے عقیدے کو ان الفاظ میں بیان کرے: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظاہری  دنیا میں جلوہ گر ہوں  یا ظاہری دنیا  سے تشریف لے جائیں  ، رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی امت کو دیکھ رہے ہیں،  حضور کو اپنی امّت کی نیتوں کو بھی  پتہ ہے،  میں دل میں کیا سوچ رہا ہوں ، آپ کیا سوچ  رہے ہیں ، اس وقت  بھی میرے آقا کو یہ معلوم ہے، فرمایا : یہ چیزیں میرے حضور سے کبھی مخفی نہیں ہوئیں۔ “

مندرجہ بالا الفاظ  کہنے والا اور اپنے  اس عقیدے کی پرچار کرنے والے  اس  شخص کا حکم  شریعت  کی روشنی میں واضح فرمادیں۔

جواب

اہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبرِ  مبارک میں حیات ہیں، اور ان کی حیات دنیوی حیات کے مماثل، بلکہ اس سے بھی قوی ہے،    اور وہ  اللہ رب العزت کی ذات وصفات کے مشاہدہ میں مشغول ہیں،    اور آپ درود وسلام  پڑھنے والوں کے درود و سلام کا جواب دیتے ہیں، قبر مبارک پر جاکر جو سلام پڑھتا ہے اس کا سلام براہ راست سن کر جواب دیتے ہیں اور جو دور سے سلام پیش کرتا ہے، فرشتے اس کا سلام آپ تک  اس کے نام کے ساتھ پہنچاتے ہیں ، اسی طرح رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  پر اپنی امت کے اعمال پیش ہوتے ہیں۔

باقی سوال میں ذکر کردہ تفصیل اگر واقعہ کے مطابق اور درست ہے تو   مذکورہ شخص  کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق   یہ عقیدہ درست نہیں ہے،  ایسا علم  کسی واسطے کےبغیر، اور بنا کسی کے بتائے  ہوئے صرف اللہ رب العزت  کو حاصل ہے، وہی عالم الغیب ہے ، اس کے علاوہ کوئی عالم الغیب نہیں   ہے، عالم الغیب اور حاضر و  ناظر ہونا اللہ تعالیٰ کی صفاتِ خاصہ میں سے ہے، صفاتِ خاصہ کا مطلب یہ ہے کہ یہ صفات کسی دوسری ہستی میں نہیں پائی جاسکتیں، لہذا  حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق  ایسا عقیدہ رکھنا یا اس کا پرچار کرنا جائز نہیں ہے، ایسا عقیدہ رکھنے والا راہِ حق سے ہٹا ہوا ہے۔

 ’’المہنّد علی المفنّد ‘‘ میں ہے:

"عندنا وعند مشائخنا : حضرۃ الرسالة صلي الله عليه وسلم حيٌّ في قبرہ الشریف وحیاتة صلي الله عليه وسلم دنیویّة من غیر تکلیفٍ، وھي مختصة بها وبجمیع الأنبیاء صلوات ﷲ علیھم والشھدآء لابرزخیَّة، کما ھي حاصلة لسائر المؤْمنین بل لجمیع الناس، نصّ علیہ العلّامة السیوطي في رسالته ’’إنباء الأذکیاء بحیاۃ الأنبیاء‘‘حیث قال: قال الشیخ تقي الدین السبکي: حیاۃ الأنبیآء والشھدآء في القبر کحیاتھم في الدنیا ویشھد له صلاۃ موسٰی علیه السلام في قبرہ، فإنّ الصلاۃ تستدعي جسدًا حیًّا إلٰی اٰخر ما قال: فثبت بھذا أنّ حیاته دنیویَّة برزخیّة لکونھا في عالم البرزخ".

(المھند علی المفند للمحدث السھارنفوری،(الجواب) عن السوال الخامس: مسئلة حیاۃ النبی صلی اﷲ علیہ وسلم،ص:21، 22 ط: دار الاشاعت کراچی)

النبراس میں ہے:

"والتحقیق أن الغیب ما غاب عن الحواس، والعلم الضروري ، والعلم الاستدلالی،  وقد نطق القرآن بنفي علمه عمن سواہ تعالیٰ ...  وأما ما علم بحاسة، أو ضرورۃ، أو دلیل، فلیس بغیب، ...  و بھٰذا التحقیق اندفع الإشکال في الأمور اللتي یزعم أنھا من الغیب، ولیست منھا،  لکونھا مدرکةً بالسمع أو البصر، أو الضرورۃ، أو الدلیل،  فأحدها أخبار الأنبیاء، لأنھا مستفاد من الوحي، و من خلق العلم الضروري فیھم، أو من انکشاف الکوائن علی حواسھم."

(النبراس، العلامة محمد عبد العزیز الفرهاري، ص:343، ط: تھانوی- دیوبند)

فتاوی شامی میں ہے:

" تزوج بشهادة الله ورسوله لم يجز، بل قيل يكفر، والله أعلم.

(قوله: قيل بكفر) لأنه اعتقد أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عالم الغيب قال في التتارخانية: وفي الحجة ذكر في الملتقط أنه لا يكفر لأن الأشياء تعرض على روح النبي - صلى الله عليه وسلم - وأن الرسل يعرفون بعض الغيب قال تعالى - {عالم الغيب فلا يظهر على غيبه أحدا} [الجن: 26] {إلا من ارتضى من رسول} [الجن: 27]-. اهـ.

قلت: بل ذكروا في كتب العقائد أن من جملة كرامات الأولياء الاطلاع على بعض المغيبات وردوا على المعتزلة المستدلين بهذه الآية على نفيها بأن المراد الإظهار بلا واسطة، والمراد من الرسول الملك أي لا يظهر على غيبه بلا واسطة إلا الملك، أما النبي والأولياء فيظهرهم عليه بواسطة الملك أو غيره."

(3 / 27، کتاب النکاح، ط: سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144411100295

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں